بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے اقوام متحدہ میں صدر زرداری کی ولولہ انگیز تقریر میں کشمیر کے ذکر پر حیرانی کا اظہار کیا ہے۔ یہ اصل میں پریشانی ہے۔ سوات میں کامیاب ملٹری آپریشن پر بھی بھارت پریشان ہوا تھا۔ اب بھارت امریکہ صدر زرداری اور جنرل کیانی شمالی وزیرستان میں آپریشن نہ کر کے پریشان کر دیں۔ کیونکہ اس آپریشن میں پاک فوج کے کامیاب ہونے کا کوئی چانس نہیں ہے۔ کشمیر کے لئے پاکستان کی بے توجہی پر بھی بھارت کو بالخصوص من موہن سنگھ کو پریشانی ہے۔ اس کی اور صدر اوبامہ کی پوزیشن ایک جیسی ہے۔ وہ احساس کمتری میں مبتلا ہو کر مسلمانوں کے زیادہ خلاف ہےں اور ظالمانہ پالیسی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ دراصل امریکہ کی ”طالبانہ“ پالیسی ہے۔ اوبامہ ڈرتا ہے کہ کہیں گورے ناراض نہ ہو جائیں۔ من موہن سنگھ سکھ ہے۔ ہندوﺅں کو یاد ہے کہ دو سکھوں نے اندرا گاندھی کو قتل کیا تھا۔ پھر ہندوﺅں نے دہلی میں سکھوں کا قتل عام منایا۔ بھارتی فوج نے اندرا کی ہدایت پر گولڈن ٹمپل امرتسر میں بندوقوں اور بوٹوں سمیت گھس کر حملہ کیا تھا۔ ہندو من موہن سنگھ پر اعتبار نہیں کرتے۔ کچھ ہندوﺅں کے مخالفانہ پروپیگنڈہ کرنے پر کہ سونیا گاندھی ہندو ہے نہ بھارتی۔ وہ وزیراعظم نہیں بن سکتی۔ تو سونیا نے انتقاماً ایک سکھ من موہن سنگھ کو وزیراعظم بنا دیا۔ اب وہ ڈرتا رہتا ہے کہ کہیں ہندو ناراض نہ ہو جائیں۔
من موہن سنگھ کو معلوم ہو گا کہ مشرقی پاکستان ایک غیر متنازعہ علاقہ تھا اور کشمیر ایک متنازعہ علاقہ۔ مشرقی پاکستان میں فوجی مداخلت کر کے بنگلہ دیش بھارت نے امریکہ کی سرپرستی میں بنایا۔ اب وہ کس منہ سے کشمیر میں مداخلت کا الزام لگاتے ہیں۔ بمبئی حملے جو بھارت نے امریکی نائن الیون کی طرح خود کرائے۔ اور الزام پاکستان پر لگاتا ہے اور ہم خاموش رہتے ہیں۔
صدر زرداری سے توقع نہ تھی کہ وہ کشمیر کا ذکر کریں گے۔ انہوں نے بڑے دھڑلے سے کشمیر کے لئے حق خودارادیت کا ذکر کر کے ہمیں حیران کر دیا۔ انہوں نے اقوام متحدہ کو بھی شرم دلائی کہ کشمیر کے لئے منظور کی گئی قراردادوں کا کیا ہوا۔ امریکہ کی مرضی سے قرارداد منظور ہوتی ہے۔ تو عراق اور افغانستان پر حملہ ہو جاتا ہے۔ بھارت کو شرم نہ آئی کہ دہشت گردی کے الزام میں جماعت الدعوة کے خلاف قرارداد منظور کروائی مگر ہماری عدالتوں نے ان کا منہ کالا کر دیا۔ اب یہ کالک صدر زرداری کی آواز میں ان کے دل تک چلی گئی ہے۔ صدر زرداری نے دوٹوک انداز میں کہا کہ اقوام متحدہ عالم اسلام کے تنازعات حل کرنے میں ناکام رہی۔ انہوں نے عالمی رہنماﺅں سے بھی درخواست کی کہ وہ کشمیری اور فلسطینی عوام کی امنگوں کو پورا کرنے میں کردار ادا کریں۔ کشمیر کے لئے صرف اپنا موقف مستحکم رکھا جائے تو پھر بھی بھارت اور امریکہ کی خیر نہیں۔
من موہن سنگھ نے بڑی ڈھٹائی سے پوچھا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے کیا کیا ہے؟ امریکہ اور بھارت کو شرم آنی چاہئے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے جتنی جدوجہد اور قربانیاں پاکستان کی ہیں وہ مغربی دنیا نے مل کر بھی انجام نہیں دیں۔ بھارت بھی آجکل مغربی بلاک کا حصہ ہے۔ ہمارے حکمرانوں اور جرنیلوں کو سوچنا چاہئے کہ پھر بھی ڈومور کی صدائیں بن کر کیوں وہ سر جھکائے ہوئے ہیں۔ کتنے شرم کی بات کہ اب بھارت بھی امریکہ کی طرح پاکستان سے ڈومور کا مطالبہ کرتا ہے جبکہ دہشت گردی کی جنگ میں بھارت کا معمولی سا حصہ بھی نہیں۔ امریکہ افغانستان میں بھارت کو اپنا جانشین بنا کے جانا چاہتا ہے۔ افغان بھارت کا امریکہ سے بھی بُرا حشر کریں گے۔ افغان پاکستان کے بغیر کچھ بھی نہیں اور امریکہ کے لئے یہ حقیقت تلخ حقیقت بن چکی ہے۔
امریکہ ڈر کے مارے شمالی وزیرستان میں نہیں جا سکتا۔ وہ برطانیہ اور روس کے انجام سے باخبر ہے۔ ڈومور کے لئے من موہن سنگھ کو اس سردار صاحب کا جواب دینا چاہئے۔ نو مور کا لفظ کافی نہیں جب انگلستان میں سردار صاحب کو انگریزی میں گالیوں کا مزا نہ آیا تو اس نے پنجابی میں مور اوور کر کے مزا لیا، اب مور اوور کی ضرورت امریکہ سے زیادہ بھارت کو ہے۔
صدر زرداری کا جرات مندانہ اور دردمندانہ جواب بھی ٹھیک ہے جو اقوام متحدہ میں تقریر کے دوران دیا گیا۔ یہ تخلیقی جملے ہیں۔ جن کی تعریف میں واجد شمس الحسن نے پورا مضمون لکھا ہے۔ ”وہ جو یہ کہتے ہیں کہ ہم نے کماحقہ کچھ نہیں کیا۔ میں بڑے انکسار سے عرض کرتا ہوں کہ وہ ہمارے مرنے والوں اور خاک و خون میں تڑپنے والوں کی یادوں کی توہین نہ کریں۔ ہمارے عوام سے وہ مطالبہ نہ کیا جائے جس کا کبھی دیگر ممالک کے عوام سے نہیں کیا گیا (واضح اشارہ بھارت کی طرف ہے) اب ڈومور کی گردان بند کی جائے“۔ میری صدر زرداری سے گزارش ہے کہ ڈھیٹ لوگ کبھی ”مور اوور“ کے بغیر نہیں مانیں گے۔ ہمت کریں کہ ظالموں اور بزدلوں کو گالی دینا اور گولی مارنا جائز ہے۔ پاکستان ایک طاقتور ملک ہو گا تو کسی کو جرات نہ ہو گی کہ وہ پاکستان کے خلاف سازشیں کرے۔ سازش کمزوروں کے خلاف ہوتی ہیں۔ لوگوں کو حکمرانوں کی نہیں لیڈروں کی ضرورت ہے۔ ہر سیاستدان صرف حکمران بننا چاہتا ہے۔ صدر زرداری بھی پہلے حکمرانوں جیسے صدر ہوئے تو کیا ہوئے؟ ملالہ کے لئے ملال ہمیں بھی ہے مگر کشمیر میں ہونے والی دہشت گردی اور ڈرون حملوں میں مرنے والی ملالاﺅں کے لئے بھی وہ کچھ کریں جو سوات کی بہادر بیٹی ملالہ کے لئے کیا جا رہا ہے۔ کیا سب کچھ صرف امریکہ کی ہدایت اور حکم پر کیا جاتا ہے۔ ملالہ پر حملے کے بہانے امریکہ کے دباﺅ پر شمالی وزیرستان پر حملہ کم جرم نہیں ہو گا۔ شمالی وزیرستان پر حملے کا فیصلہ پاکستان نے تو نہیں کرنا؟ یہ فیصلے بھی امریکہ کرے گا اور شاید وہ کر بھی چکا ہے۔ کہتے ہیں کہ صدر زرداری یاروں کے یار ہیں اور بہادر آدمی ہیں۔ تو پھر بزدلانہ غیر دوستانہ فیصلے نہیں ہونا چاہئیں۔
ناموس رسالت کے لئے بھی ایک مسلمان صدر کی طرح اقوام متحدہ میں صدر زرداری نے بات کی اور یہ بہت بڑی بات ہے مگر ناموس رسالت کے جلوسوں پر جس طرح پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے ڈالر لٹائے گئے۔ وہ کس کس کی جیب میں گئے۔ اگر صدر زرداری امریکہ کی ملالہ ڈاکٹر عافیہ کا ذکر بھی اقوام متحدہ میں کر دیتے تو کمال ہو جاتا۔ تقریر تو اچھی تھی مگر تقدیر؟
0 تبصرے:
اپنا تبصرہ تحریر کریں :-
ضروری بات : غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے ۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔