لاہور ائرپورٹ پر جِس جیالے پن سے ایک غیر جیالے منظور وٹو کا استقبال ہوا وہ پنجاب کے کسی جیالے صدر کا نہیں ہوا ہو گا۔ اس کا کریڈٹ صدر زرداری کو جاتا ہے اور منظور وٹو کو بھی جاتا ہے۔ ثابت ہو گیا ہے کہ ان دنوں سب سے بڑا اور شاطر سیاستدان صدر زرداری ہے اور ان کے بعد منظور وٹو ہیں۔ لاہور ائرپورٹ پر سارے جیالے زرداری کے تھے مگر وہ وٹو کے ٹٹو لگ رہے تھے۔ منظور وٹو بڑی شے ہے۔ چودھری شجاعت بھی کم سیاستدان نہیں۔ وہ نوازشریف کی مرضی کے بغیر پنجاب کا وزیراعلیٰ بن گئے۔ شریف برادران اپنے خاندان کے علاوہ کسی کو وزیراعلیٰ کبھی بننے ہی نہیں دیں گے۔ اگر کبھی یہ مجبوری ہوئی تو ایک پکے ورکر غلام حیدر وائیں کو بنائیں گے۔ وہ نظریہ پاکستان کے عاشق تھے۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے ہال میں ان کی تصویر لگی ہے۔ پریس کلب میں بھی ہے مگر کسی مسلم لیگ کے کسی دفتر میں ان کی تصویر نہیں ہے۔ سیاسی کام انہیں کرنے نہ دیا گیا۔ فلاحی اور پاکستانی کام انہوں نے کئے۔ درویش آدمی نام کے وزیراعلیٰ تھے۔ وزیراعلیٰ تو شہباز شریف تھے۔ یہی حال دوست محمد کھوسہ کا تھا۔
ایسے میں منظور وٹو کا وزیراعلیٰ بن جانا شریف برادران کیلئے بہت تکلیف دہ تھا۔ چودھری پرویز الٰہی بھی ان کی اجازت کے بغیر وزیراعلیٰ بنے۔ جبکہ دونوں بھائی جدہ کے سرور محل میں بقول مجید نظامی صاحب‘ سرور لے رہے تھے۔ چودھری پرویز الٰہی اسی طرح وزیراعلیٰ بنے جیسے نوازشریف وزیراعلیٰ بنے تھے۔ جنرل ضیا ٹھیک تھا تو جنرل مشرف اس معاملے میں کیسے غلط تھا۔ منظور وٹو نے مسلم لیگ ن کو شکست دی۔ اس نے پیپلز پارٹی کو بھی زیر کیا بلکہ سب اپنے پرائے سیاستدانوں کو زیر و زبر کر دیا۔ پنجاب اسمبلی میں 18 ممبران کے ساتھ پیپلز پارٹی کے 80 سے زیادہ ارکان کو اپنا محکوم بنایا۔ اپنی جماعت کے ساتھی حامد ناصر چٹھہ کی ساری منفی سیاست کو چاروں شانے چت کر دیا۔ صدر زرداری کی طرح حلیفوں اور حریفوں کو ایک ساتھ دبائے رکھا۔
تب میں نے ایک جملہ لکھا تھا جسے وٹو صاحب نے کئی محفلوں میں دہرایا اور انجوائے کیا۔ میں نے لکھا تھا کہ ہمیشہ ندی نالے دریاؤں میں گرتے ہیں مگر یہاں پیپلز پارٹی کا دریا منظور وٹو کے نالے میں گر پڑا ہے۔ پیپلز پارٹی کے جیالے پن کے باوجود انہوں نے اسے گندا نالہ نہیں بننے دیا اور مضطرب پانیوں کو کناروں سے اچھلنے بھی نہیں دیا۔ دو سال سے زیادہ حکومت کی۔ شریف برادران بھی دیکھتے رہ گئے اور جیالے ہاتھ ملتے رہے۔ دانت بھی پیستے رہے۔ جس طرح آج کل اوپر اپنی حکومت کے باوجود پنجاب کا درد انہیں کھائے جا رہا ہے۔ تب صاحب انجوائے کرتے رہے۔ وہ وزیراعلیٰ نہ رہے مگر اپنی سیاست کو محفوظ رکھا۔ اپنی فیملی کے دو آدمی ممبر اسمبلی بنوا لئے۔ ان کی ایک بیٹی بھی ایم پی اے ہے۔ اوکاڑہ میں دیہاتی سیاست (رورل پالیٹکس) میں اپنا نام بنایا۔ جس کا خطرہ اتحادی ہونے کے باوجود چودھری برادران کو ہے۔ ان کی سیاست شہروں سے دور بہت چلتی ہے۔
چودھری شجاعت نے ایوان صدر میں صدر زرداری سے ون آن ون طویل ملاقات کی اور روٹی شوٹی بھی کھائی۔ اس سے پہلے انہوں نے احمد مختار اور قمر الزمان کائرہ کو وزیراعظم نہیں بننے دیا۔ مگر اس بار انہیں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ یہ صدر زرداری کی کامیابی ہے مگر کچھ کامیابی منظور وٹو کی بھی ہے۔ وٹو صاحب کچھ نہ کچھ تو کریں گے۔ ان سے ن لیگ والے بھی ڈر رہے ہیں اور ق لیگ والے بھی ڈر رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ صدر زرداری دونوں کو ڈرا کر رکھنا چاہتے ہیں مگر کچھ ڈر تو پیپلز پارٹی کو بھی ہونا چاہئے کہ پنجاب کے اگلے وزیراعلیٰ کیلئے منظور وٹو مضبوط ترین امیدوار ہوں گے۔ یہ خطرہ چودھری پرویز الٰہی کیلئے اور شہباز شریف کیلئے ہو سکتا ہے تو پیپلز پارٹی کا کوئی جیالا ترنگ میں آ سکتا ہے۔ اسلم گل ایک سچا ورکر ہے مگر جو کچھ ہوا ہے وہ ناقابل تلافی نقصان ہے۔
لاہور ائرپورٹ پر منظور وٹو کیلئے جیالا پن کی انتہا ہو گئی۔ بانکپن کے مقابلے میں جیالا پن کی اصطلاح میرے ذہن میں کل ہی آئی ہے۔ یہ خونیں استقبال تھا کہ اے ایس ایف کے کئی اہلکار اور کئی جیالے لہولہان ہو گئے۔ خونیں انقلاب ہو سکتا ہے جو شہباز شریف کی سیاسی پیشگوئی ہے تو خونیں استقبال کیوں نہیں ہو سکتا۔ خونیں انتخاب کی بات شیخ رشید کر رہے ہیں۔ وہ کئی جماعتوں کی سیر کر آئے ہیں۔ کئی بار وزیر رہے ہیں۔ اب عمران خان کے سونامی کو پنڈی میں اپنے ہمسائے میں نالہ لئی تک لے آئے ہیں۔ شیخ صاحب پیپلز پارٹی میں نہیں پھر بھی وہ فرسٹ کلاس جیالے ہیں۔ پیپلز پارٹی ان کے اندر ہے۔
منظور وٹو نے کہا کہ جو کام مجھے صدر زرداری نے دیا ہے میں وہ کر کے دکھاؤں گا۔ انہوں نے مقصد کا لفظ استعمال کیا ہے وہ مقصد کیا ہے۔ یہ ایک سیاسی بجھارت ہے۔ چودھری صاحب اس کے معانی یہ سمجھے ہیں جو انہوں نے صدر زرداری کو سمجھانے کی ناکام کوشش کی ہے۔ صدر زرداری چودھری صاحبان کو بھی اس طرح اتحادی بنانا چاہتے ہیں۔ جس طرح الطاف حسین ہیں۔ چودھری شجاعت نے صدر زرداری سے کہا کہ منظور وٹو ناقابل اعتماد ہیں۔ سیاست میں ایک بھی قابل اعتماد نہیں ہے۔ شریف برادران یہ بات چودھری برادران کیلئے کہتے ہیں۔ چودھری ظہور الٰہی زندہ ہوتے تو وہ بھی یہی کہتے۔ ن لیگ میں چودھریوں کے وزیر شذیر قبول ہیں مگر وہ خود نہیں۔ مجھے تو ماروی میمن کیلئے دکھ ہے وہ قابل اعتماد نہیں؟
وٹو صاحب کی تقریر سے جیالے مطمئن نہیں ہوئے۔ وہ پیپلز پارٹی کے گورنر راج کے دنوں میں بھی ناکام ہوئے تھے۔ تب صدر زرداری نے انہیں کامیاب نہیں ہونے دیا ہو گا۔ منظور وٹو چودھری صاحبان سے ہشیار رہیں۔ اس میں چودھری نثار بھی شامل ہے۔ وٹو صاحب کو صدر زرداری سے بھی محتاط رہنے کی سخت ضرورت ہے۔ وہ صدر زرداری کے مقابلے کے سیاستدان تو نہیں مگر اس کے علاوہ ان کا کوئی مدمقابل نہیں۔ چودھری شجاعت انہیں ٹف ٹائم دے سکتے ہیں۔
ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان منظور وٹو کے ساتھ آئیں۔ آصف ہاشمی نے اعلان کیا تھا کہ اسے وزیر اطلاعات میں نے بنوایا تھا۔ تو اب یہ کہنے میں ان کو ذرا بھر تردد نہ ہو گا کہ منظور وٹو کو پنجاب کا صدر میں نے بنوایا ہے۔ پنجاب پیپلز پارٹی پہلے ہی ہاشمی سے ناراض ہے۔ انہوں نے نااہل اور کرپٹ وزیراعظم گیلانی کو اغوا کئے رکھا۔ تنویر اشرف کائرہ پنجاب کے جنرل سیکرٹری ہوئے ہیں۔ ان کی وہی حیثیت ہو گی جو سیکرٹری جنرل جہانگیر بدر کی ہے۔ وہ منظور وٹو کے پیچھے پیچھے تھے۔ انہیں کوئی پوچھنے والا نہ تھا جبکہ وہ بہت سوبر جیالے ہیں۔ شریف آدمی ہیں۔ سیاست میں شریف نہیں۔ آدمی کو نوازشریف ہونا چاہئے۔ بہرحال لگتا تھا کہ وٹو صاحب وزیراعلیٰ پنجاب بن کر آ رہے ہیں۔ جیالے اپنی یہ حسرت کسی طرح مٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ منظور وٹو اور چودھری پرویز الٰہی سپیکر تھے اور وزیراعلیٰ بنے۔ اب رانا اقبال کا کیا خیال ہے۔
0 تبصرے:
اپنا تبصرہ تحریر کریں :-
ضروری بات : غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے ۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔