Share
"اُردو کالمز" بلاگ پر خوش آمدید۔ بلاگ کو زیادہ سہولت کیساتھ ڈائنامک ویو (Dynamic View) میں دیکھنے اور پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں:

Tuesday, October 30, 2012

سچ یہ بھی ہے اصغر خان زرداری صاحب


ائر مارشل اصغر خان نے اپنے اوپر لگنے والے الزامات کا جواب دیا ہے۔ یہ ایک غیر موثر اور غیر متعلق تحریر ہے۔ 65ءکی جنگ ستمبر میں وہ قوم کے ہیرو تھے۔ تب تینوں فوجوں کے ہر سپاہی کو ہیرو سمجھا جاتا تھا۔ فوج کو خراب کرنے کی کوشش کی گئی۔ اصغر خان نہ اب سیاستدان ہیں نہ اب جرنیل ہیں۔ انہوں نے خواہ مخواہ ایک پرانا مردہ اکھیڑنے کی کوشش کی۔ پاکستان کے ایٹمی رازوں کو خطرہ ہے۔ تب بھارت کی پاکستان دشمنی عروج پر تھی مگر پاکستان کے سیاسی حکمران ملک سے بے وفائی کر رہے تھے۔ بے نظیر بھٹو کی حکومت گرانے کی کوشش کی گئی۔ یہ سچ آگے چل کر بیان کر رہا ہوں۔ ٹی وی چینل بھی یہ سرگوشیاں کرنے لگے ہیں۔ جنرل مشرف نے تو حد کر دی مگر پاکستانیوں کے دلوں سے فوج کی محبت کوئی نہ نکال سکا۔ جنرل کیانی پہلے جنرل مشرف کا ساتھ دیتے رہے اور پھر فوج کا امیج بحال کرنے کی کامیاب کوشش کی لوگوں نے فوج کی محبت اپنے اندر تلاش کر لی۔ وہ جنرل کیانی کو اپنا ہیرو سمجھنے لگے۔ وہ ہیرو ہیں انہوں نے خاموشی اور گہرائی سے ساری مشکلات کا مقابلہ کیا۔ انہوں نے سوات کامیاب آپریشن کیا۔ امریکہ اور بھارت کو امید تھی کہ وہاں پاکستانی فوج پھنس جائے گی۔ اب انہوں نے ملالہ پر حملہ کرا کے شمالی وزیرستان میں پاک فوج کو جھونکنے کی سازش کی ہے۔ میری التجا ہے کہ جنرل کیانی شمالی وزیرستان میں آپریشن نہ کریں۔ امریکہ کہیں نہ کہیں پاک فوج کو پھنسانا چاہتا ہے۔ شمالی وزیرستان میں جاتے ہوئے امریکہ خود ڈرتا ہے اور قربانی کا بکرا پاک فوج کو بنانا چاہتا ہے۔ وہ فوج کو کمزور کرکے اپنا مقصد پورا کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان کے سارے ادارے زرداری حکومت میں تنہا ہو گئے ایک فوجی ادارہ بچا ہے کہ اس پر کسی کا بس نہیں چلتا۔ایٹمی اثاثوں سے پاکستان کو محروم کرنے کا منصوبہ بھی امریکہ کا ہے اسے ہر سیاسی حکومت کی حمایت حاصل رہی ہے۔ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ چاہا کہ مارشل لا لگ جائے اور ہم مظلوم بن جائیں۔ 
امریکہ یہ بھی چاہتا ہے کہ پاک فوج مارشل لا لگائے اور ملک کے دگرگوں حالات میں پھنس جائے۔ ہمارے سیاستدان جنرل کیانی پر تنقید کرتے ہیں مگر امریکہ مارشل لاءلگوانا چاہتا ہے اور وہ امریکہ کے خلاف چوں نہیں کر سکتے۔ جب بھی پاکستان میں مارشل لاءلگا امریکہ نے لگوایا۔ یہ حقیقت سیاستدانوں کے لئے تلخ حقیقت بن چکی ہے کہ وہ کچھ کہہ بھی نہیں سکتے۔ بس یہ لوگ آپس میں لڑتے رہتے ہیں۔ قصور جنرل ایوب، جنرل یحیٰی، جنرل ضیاءاور جنرل مشرف کا بھی ہے مگر اصل قصور امریکہ کا ہے۔ کوئی سیاستدان یہ بتائے کہ تین بار حکومتیں سویلین صدر نے توڑیں۔ تین بار جرنیلوں نے توڑیں۔ اس ملک کی بربادی کے لئے سیاسی جرنیل اور جرنیلی سیاستدان دونوں برابر کے ذمہ دار ہیں مگر وہ بیوروکریٹس کو کیوں بھول جاتے ہیں۔ وہ ان دونوں سے ”ودھ“ ہیں۔ حکمران سیاستدان ہو یا جرنیل ہو انہیں خراب کرنے والے افسران بالا بلکہ افسران تہ و بالا ہیں۔ محترم اصغر خاں دل پر ہاتھ رکھ کر کہہ دیں کہ منتخب وزیراعظم بھٹو کے خلاف تحریک امریکہ کی چلائی ہوئی نہ تھی؟ امریکہ نے بھٹو کو عبرت کا نشان بنانے کا بہت پہلے سے اعلان کیا تھا۔ امریکہ دوست بنا کے بھی کام لیتا ہے اور دشمن بنا کے بھی اپنا ہی کام لیتا ہے۔ بھٹو زرداری صاحب ہی کی طرح امریکہ کے آدمی تھے۔ پھر جب ان کے اندر پاکستان اور عالم اسلام کے لئے جذبہ پیدا ہوا تو امریکہ نے انہیں پھانسی پر چڑھوا دیا۔ زرداری صاحب کے دل میں وطن کی محبت کب جاگے گی؟ میں نے لکھا تھا کہ اصغر خاں کوہالہ پل پر تو بھٹو کو پھانسی نہ دے سکے مگر پنڈی جیل میں انہیں پھانسی مل گئی۔ امریکہ نے بابائے جمہوریت اور اصغر خان کی تحریک سے مایوس ہو کر جنرل ضیاءسے مارشل لاءلگوایا جب بھٹو کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہو گئے تو اصغر خاں نے انہیں کہا کہ جنرل ضیاء90 دن کا مارشل لاءلگا کے اقتدار ہمارے حوالے کر دے گا۔ وہ یہ بھی دل پر ہاتھ رکھ کر بتا دیں کہ جنرل ضیاءسے مارشل لاءامریکہ نے نہیں لگوایا تھا؟ اور پی این اے کو امریکہ کی مکمل سپورٹ حاصل نہ تھی؟ تاریخ اس معاملہ میں بابائے جمہوریت اور اصغر خان کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔ مجاہدین کو دہشت گرد امریکہ نے بنایا۔ وہ فریڈم فائٹر ہیں جو اپنے ملک پر قابض ملک کے خلاف جہاد کر رہے ہیں۔ اصغر خاں کا سچ ادھورا ہے اور ان کی تحریک استقلال کی طرح ادھ موا ہے۔ اصغر خاں کو پتہ ہے کہ ائرفورس کے سربراہ ائرمارشل مصحف علی کا طیارہ امریکہ نے گرایا۔ وہ امریکہ کو ہوائی اڈے دینے کے خلاف تھے۔ 
جرنیلوں کے لئے میرے دل میں تحفظات ہیں مگر اصغر خان صاحب کو کیا یہ معلوم نہیں کہ جس بے نظیر بھٹو نے جنرل اسلم بیگ کو تمغہ جمہوریت دیا تھا اسی کی حکومت کے خلاف جنرل اسلم بیگ نے صدر اسحاق کے ساتھ مل کر ایک منصوبہ بنایا۔ اسد درانی بھی ساتھ تھے مگر اب ان کا رویہ سپاہیوں والا نہیں سیاستدانوں والا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صدر اسحاق محب وطن تھے۔ جنرل اسلم بیگ کے لئے بھی میری یہی رائے ہے۔ ایوان صدر اور جی ایچ کیو تک یہ بات پہنچی کہ ایٹمی تنصیبات کے لئے سب معلومات امریکہ کو دی جانے والی ہیں اور بھارت کے ساتھ سیاسی حکومت کے جذبات ظاہر ہو گئے اس میں کیا راز ہے کہ وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے دکھ اور مایوسی کا اظہار کیا تھا کہ یہ مجھے ایٹمی تنصیبات کا معائنہ کرنے نہیں دیتے۔ اب بھی ایٹمی اثاثے فوج کی نگرانی میں ہیں تو محفوظ ہوں گے۔ ماضی شکریہ کا صیغہ ہے۔ جب راجیو گاندھی کے راستے سے کشمیر اور بھارتی قیادت کے لئے ناپسندیدہ بورڈ وغیرہ ہٹا دئیے گئے اور یہ گھناﺅنا سچ ہے اور سچ یہ بھی ہے کہ بے نظیر حکومت نے بدنام زمانہ اعتزاز احسن کی معرفت سارے سکھ حریت پسند لیڈروں کی فہرستیں اندرا گاندھی کو دے دیں۔ اس نے خالصتان کے تمام لوگ چن چن کر مار دئیے۔ گولڈن ٹیمپل امرتسر پر حملہ بھی کیا۔ یہ سب معلومات سیاسی اور عسکری قیادت کے سامنے آ گئیں۔ پھر وہ واقعہ ہوا جس پر اصغر خان کو اعتراض ہے اور انہوں نے مقدمہ کیا۔ سپریم کورٹ پاکستان کے ساتھ محبت میں احتیاط برت رہی ہے کہ اس سے بھی بے احتیاطی کرانے کی بہت کوششیں ہوئی ہیں۔ حسین حقانی کے ذریعے جرنیلوں کو مشتعل کرنے کی کوشش کی گئی مگر اب تک کوئی بات ان کی نہیں بنی نہ امریکہ کی بات بنی ہے۔
جب سینکڑوں لوگوں کی موجودگی میں بریگیڈئر حامد سعید نے اپنا بیان پیش کیا تو قومی مفاد میں اس کے پہلے پانچ صفحے کنفیڈنشل بنا دیئے گئے۔ ان میں آج کے حالات کی طرف اشارہ بھی ہے۔ وہ تحریر عدالت کے ریکارڈ میں موجود ہے۔ اس میں خطرناک باتیں کیا ہیں؟ آخر بہادر ڈٹ کر کھڑے جنرل حمید گل کو کیوں نہیں بلایا جاتا۔ وہ آئی جے آئی بنانے کا اعتراف کرتے ہیں اور کہتے ہیں مجھ پر مقدمہ چلاﺅ۔ میں وہاں بتاﺅں گا وہ جو کچھ بتانا چاہتے ہیں۔ اس سے کون ڈرتا ہے۔ ڈرے ہوئے لوگ خدا سے نہیں ڈرتے۔
آج کی حکومت اگر کچھ ہینکی پھینکی کرے گی تو فوج اس کی گرفت ضرور کرے گی۔ اس پر ابھی ایک تفصیلی کالم لکھوں گا۔ روسی صدر پیوٹن کیوں نہ آئے۔ صدر زرداری روس گئے تھے وہی جواب دیں اور پھر جنرل کیانی کیوں روس چلے گئے۔ یہ کیا پیغام تھا اور کس کو پیغام تھا۔

0 تبصرے:

اپنا تبصرہ تحریر کریں :-

ضروری بات : غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

Urdu Columns Pk
 
اُردو کالمز | #1 اردو کالمز بلاگ 2011 - 2014