بیکری کے ملازمین سے شہباز شریف کی بیٹی کے جھگڑے کے بعد ایلیٹ فورس کے آٹھ شیر جوانوں نے ان کی پٹائی کی جسے مسلم لیگ ن کے سہیل ضیاءبٹ کے بیٹے عمر سہیل ضیاءبٹ ایم این اے نے بھی بربریت قرار دیا۔ سہیل ضیاءبٹ شریف خاندان کا حصہ ہیں جدہ میں بھی ان کے ساتھ آرام فرماتے رہے ہیں۔ بیکری کے واقعہ پر گورنر پنجاب سردار لطیف کھوسہ نے پھولن دیوی کو یاد کیا۔ یہ زیادتی ہے کہ یہ منفی ہے۔ سردار صاحب پھولن دیوی کو جانتے ہی نہیں۔ وہ سرداروں، وزیروں، وڈیروں، لٹیروں، ظالموں، ڈاکوؤں کے خلاف تھی۔ اس نے اپنے ساتھ زیادتیوں کا بدلہ اس طرح لیا کہ ظالم اس سے کاپننے لگے۔ ظالم بزدل ہوتا ہے اس کے آگے کوئی ڈٹ جائے تو وہ بھاگ جاتے ہیں۔ یہی پھولن دیوی صلح کے بعد ممبر پارلیمنٹ منتخب ہوئی۔ یہ اس کی مقبولیت کا ثبوت ہے۔ اس نے ممبر پارلیمنٹ کے طور پر اپنے آپ کو ایک فلاحی اور غریب دوست لیڈر ثابت کیا مگر اس کے دشمن اس کی دلیری سے بھی ڈرتے تھے انہوں نے اسے قتل کر دیا۔ وہ ایک بڑی عورت تھی بہادر، غیرت مند اور نڈر۔ میں اسے سلام کرتا ہوں۔
جب میں انڈیا گیا تھا ایک ہی بار گیا۔ پھر پاکستانیت سے مربوط خیالات کی وجہ سے میری کتاب ”غدر میں محراب“ کے آنے پر بھارتی سفارت خانے نے مجھ پر پابندی لگا دی۔ میں نے تب کہا تھا جب مجھ سے پوچھا گیا کہ تم بھارت کس سے ملنے آئے ہو۔ میں نے کہا تھا کہ میں پھولن دیوی، امرتا پریتم اور لتا منگیشکر سے ملنے آیا ہوں۔ امرتا اور لتا سے ملاقات ہوئی مگر میں عظیم عورت پھولن دیوی سے ملاقات نہ کر سکا۔ ہمارے ایک مرحوم ادیب انیس ناگی نے بہت نامور عورت شاعرہ، ادیبہ، کالم نگار کشور ناہید کو ادب کی پھولن دیوی کہا تھا اور یہ پازیٹو بات تھی جبکہ گورنر پنجاب کی بات بہت نیگٹو اور ”سیاسی“ ہے۔ ہمارے ہاں سیاسی بات ہوتی ہی نیگٹو ہے۔ کشور ناہید ایک بہادر عورت ہے، ہم نے عورتوں کے حقوق کی بات کشور ناہید سے سُنی تھی۔ وہ اس حوالے سے پہلی عورتوں میں سے ہے اس نے پھولن دیوی کے خطاب پر ناراضگی نہیں کی تھی بلکہ خوش ہوئی تھی۔ یہ ایک ادبی بات تھی مگر سردار لطیف کھوسہ کو ادب کا پتہ ہی نہیں۔ شعر و ادب کا تو واقعی پتہ نہیں۔ انہیں ادب آداب بھی نہیں آتے۔ مخالفوں کی بہو بیٹیوں کو بھی اپنی بچیاں سمجھا جاتا ہے۔ اب ہمارے ہاں سیاسی گالم گلوچ اتنی بڑھ گئی ہے کہ بات گھروں کے اندر پہنچ گئی ہے۔ ن لیگ کے چوہدری نثار اور ایم کیو ایم کے وسیم کی گفتگو سُن کر شرم آئی۔
پہلے سردار کھوسہ بات کو پوری طرح تولا کریں اور پھر بولا کریں مگر سردار کھوسہ کے بارے میں طالب علمی کے زمانے کا نعرہ یاد آتا ہے جو مخالفوں کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔ تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ کہ سیاستدنوں کو آئین میں ترمیم کی عادت پڑ گئی ہے :
پہلے بات کو تول اوئے کھوسے
پھر بھی نہ منہ سے بول اوئے کھوسے
لیکن ایک بات بہرحال بے چین کرتی ہے کہ آخر ن لیگ کے کھوسوں کا مسئلہ بھی سامنے آیا تھا۔ آجکل پنجاب کا چیف سیکرٹری بھی ایک کھوسہ ہے۔ بیکری میں کیا ہوا۔ کوئی بدتمیزی تو بیکری ملازم نے کی ہو گی۔ بات کیا تھی کہ شہباز شریف کی بیٹی کو اتنا غصہ آیا پھر اس کے گھر والوں کو غصہ آیا۔ آخر کس نے ایلیٹ فورس کے جوانوں کو حکم دلوایا، کس پولیس آفیسر نے حکم دیا اُسے بھی شامل تفتیش کریں اور آئی جی پنجاب حاجی حبیب الرحمن کارروائی کریں۔ حاجی صاحب بہت دل والے آدمی ہیں اور پولیس کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں، ان کی ڈی پی آر نبیلہ غضنفر پولیس کا امیج بہتر کرنا چا ہتی ہیں، اس کے لئے میڈیا کے کردار کو بہت اہمیت دی جا رہی ہے لیکن علی عمران کے خلاف کارروائی شہباز شریف کی وجہ سے ہوئی ہے۔
شہباز شریف کے داماد علی عمران پر مقدمہ تشدد کے شکار بیکری ملازم نے کیا ہے۔ اس بات کی کوئی اہمیت تو ہے کہ خود شہباز شریف نے اپنے داماد علی عمران کو شامل تفتیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ آئی جی پنجاب کی ہدایت پر اسے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ علی عمران نے خود گرفتاری دی۔ اسے حوالات میں عام ملزموں کی طرح بند کیا گیا ہے۔ قانون کے مطابق کارروائی کرنے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے؟
ہمیں معلوم ہے کہ اس کے لئے کچھ بھی نہیں ہو گا۔ علی عمران کو کچھ بھی نہیں ہو گا۔ اس سے پہلے نواز شریف نے اپنے داماد کیپٹن صفدر کی رکنیت معطل کی مگر اب وہ بحال ہو گئی ہے۔ بہرحال جو کچھ شریف صاحبان نے کیا اور کسی سیاستدان اور پارٹی لیڈر نے کیا ہے؟ نااہل وزیراعظم گیلانی نے اپنے بیٹوں کو بچانے کے لئے اپنے اختیارات کا کیا کیا استعمال نہیں کیا بلکہ قانون کا استحصال کیا۔ علی گیلانی کی شرمناک گرفتاری کا منظر سب نے دیکھا۔ وہ بھی علی عمران کی طرح خود گرفتاری پیش کر سکتا تھا۔ آصف ہاشمی آج بھی نااہل وزیراعظم گیلانی کے بیٹوں کا حامی ہے۔ وہ گیلانی صاحب کے احسانات کو نہیں بھولتا۔ اس کے بھی گیلانی پر بڑے احسان ہیں۔ متروکہ وقف املاک بورڈ میں گیلانی صاحب کو نوکری دینے کے لئے تیار ہے۔ البتہ چوہدری پرویز الٰہی نے اپنے بیٹے مونس الٰہی کو لندن سے بُلا کے قانون کے حوالے کیا، اسے عدالت نے بری کیا۔ اس پر بھی لوگوں کو شک ہے مگر قانون کے تقاضے تو پورے ہوئے۔
اب یہ تو طے کرنا ہو گا کہ ایلیٹ فورس کے جوان بیکری ملازم کو مزا چکھانے کس کے حکم پر آئے اور پھر ان کی فوراً ضمانتیں کیسے ہو گئیں۔ اس طرح جینوئن کارروائی نہیں ہو سکتی۔ علی عمران بھی جلد باہر آ جائے گا پھر بھی قانون کو حرکت میں آنے سے روکا نہیں گیا بلکہ قانون کے مطابق کارروائی کی ہدایت کی گئی۔
پھولن دیوی غریب تھی، مظلوم تھی۔ جان و مال عزت و آبرو سے کھیلنے کے خلاف بغاوت اور انتقام کی آگ اس کے سینے میں بھڑک اٹھی تھی۔ جو کچھ پاکستان میں ہو رہا ہے پھولن دیویاں پیدا ہوں گی اور وہ ظالموں، حاکموں کو مزا چکھائیں گی اور ممبر اسمبلی بھی بنیں گی۔ سفارشی ممبر خواتین تو صرف اپنے پارٹی لیڈروں کے لئے ایک دوسرے سے لڑتی ہیں۔ انہوں نے پچھلے دس برسوں میں کچھ بھی قابل ذکر نہیں کیا جس کام کے لئے ان خوبصورت عورتوں کو اسمبلی میں لایا گیا ہے بس وہی کام انہوں نے کیا ہے۔ ہماری سیاست کتنی گندی ہو گئی ہے اب واقعی کسی پھولن دیوی بلکہ کئی پھولن دیویوں کی ضرورت ہے اور انتظار بھی ہے۔
0 تبصرے:
اپنا تبصرہ تحریر کریں :-
ضروری بات : غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے ۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔