Share
"اُردو کالمز" بلاگ پر خوش آمدید۔ بلاگ کو زیادہ سہولت کیساتھ ڈائنامک ویو (Dynamic View) میں دیکھنے اور پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں:

Wednesday, October 31, 2012

حج کا پیغام مسلم بلاک مگر جعلی جمہوریت


حج تو وہی تھا جو ایک دن پہلے پڑھا گیا مگر پاکستان میں کئی لوگ دوسرے دن باقاعدہ حج مفتی منیب الرحمن کی قیادت میں مناتے ہیں۔ عید پر انتشار اور خلفشار ہوتا ہی ہے۔ حج پر تفریق مضحکہ خیز ہے۔ مجھے تو حج کے لئے مفتی ¿ اعظم کا خطبہ پسند آیا۔ انہوں نے یہ کہہ کر خوش کر دیا کہ جعلی جمہوریت سے اسلامی نظام بہتر ہے۔ پاکستان میں آجکل جعلی جمہوریت ہے۔ اب یہ ضرب المثل کتنی سطحی اور مفاد پرستانہ ہے کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ سیاستدان جعلی جمہوریت کے بغیر اقتدار میں نہیں آ سکتے۔ امریکہ اور مغرب میں جمہوریت شاید کچھ ٹھیک ہو مگر مشرق، عالم اسلام اور بالخصوص پاکستان میں ظلم و ستم، استحصال اور استعمال کا ایک بدترین مگر کامیاب ترین حربہ ہے۔ چین میں اپنا نظامِ سیاست ہے۔ اس کے لئے امریکہ بڑبڑاتا ہے مگر کچھ کر نہیں سکتا۔ طاقت زندگی کے لئے بڑی ضروری ہے۔ امریکہ نے جہاں جہاں ظلم توڑے جمہوریت اور بنیادی حقوق کے نام پر توڑے ، خود اس نے جمہوریت اور بنیادی حقوق کے پرخچے اُڑا دئیے۔ جمہوریت ایک بہت بڑا فراڈ ہے، یہ ایٹم بم سے زیادہ مہلک ہتھیار ہے۔ سچی جمہوریت کے ہم پوری طرح حامی ہیں، آمریت کے مقابلے میں سختیاں برداشت کی ہیں مگر جعلی جمہوریت نے ہمیں کیا دیا۔ جھوٹی اور جعلی جمہوریت نے دنیا کو برباد کر دیا ہے۔ اسلام میں سچی جمہوریت کا ایک نظام ہے اور وہ بہترین نظام ہے۔ رسول کریم سے بڑا جمہوری کون تھا۔ آپ نے برابری اور مساوات کا جو تصور دیا وہ آئیڈیل ہے۔ امریکہ نے عالم اسلام میں آمریت وغیرہ کی حمایت کی پھر اپنا مقصد پورا کرنے کے لئے جمہوریت کا جھانسہ بھی دیا۔ پاکستان میں نہ سچی جمہوریت آنے دی گئی نہ پکی آمریت کو پنپنے دیا گیا۔ یہاں آمرانہ جمہوریت اور جمہوری آمریت کا تسلط رہا ہے۔ کسی نظام کو مکمل طور پر نافذ ہی نہیں ہونے دیا گیا۔ جنرل مشرف، جنرل ضیا، جنرل یحیٰی اور جنرل ایوب کی حمایت کس نے کی۔ صرف جنرل ضیا کو سزا دی گئی کہ وہ طاقتور اور سچا پاکستانی تھا ورنہ امریکہ کی ہدایت پر ملک کو دولخت کرنے والے جنرل یحیٰی کو 21 توپوں کی سلامی اور قومی پرچم کا کفن دے کر سپرد خاک کر دیا گیا۔ جنرل ایوب نے امریکہ کو آخری دنوں میں جان لیا تھا کہ وہ دشمن ہے دوست نہیں ہے اسے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنے کے لئے چھوڑ دیا گیا۔ جنرل مشرف کو گارڈ آف آنر دلا کے لندن میں پناہ دی گئی۔ 
پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو دن دیہاڑے جلسہ عام میں گولی مروائی گئی، ان کے قاتل آج تک نہیں پکڑے گئے۔ خواجہ ناظم الدین کی حکومت تڑوائی گئی، عدالت سے آمر کے حق میں فیصلہ دلوایا گیا۔ بھٹو کو پھانسی دلوائی گئی، بے نظیر بھٹو کو اپنے گارڈز کے درمیان گولی مروا کے ان کے شوہر زرداری صاحب کو صدر بنوایا گیا کہ وہی امریکہ کے لئے کارآمد ہو سکتے ہیں۔ نواز شریف کو دو بار حکومت دے کے نکالا گیا، جیسی تیسی بھی جمہوریت تھی اس کو سنبھلنے ہی نہ دیا گیا۔ یہ جعلی جمہوریت نہیں تو اور کیا ہے۔ ہم کہتے ہیں امریکہ کی جنگ سے نکلو، اب یہ بھی کہتے ہیں کہ امریکہ کی جمہوریت سے جان چھڑاؤ۔ جو جمہوریت مادرِ ملت کو دھاندلی سے ہروا سکتی ہے وہ جعلی جمہوریت ہے۔ 
مفتیٔ  اعظم نے کہا کہ مسلمان جدید ٹیکنالوجی کی طرف توجہ دیں۔ یہ بہت ضروری ہے۔ مُلا عمر نے افغانستان میں بہترین حکومت قائم کی وہ چار برسوں میں اتنی عسکری طاقت بھی پیدا کر لیتے تو امریکہ کبھی حملے کی جرا¿ت نہ کرتا۔ اب بھی امریکہ وہاں ذلیل و خوار اور لہولہان ہو کر نکلے گا۔ جدید ٹیکنالوجی کا مشورہ مفتی ¿ اعظم صاحب سعودی عرب کے بادشاہوں کو بھی دیں جو خادمِ حرمین شریفین ہیں۔ اس کے بعد شریف برداران ہیں وہ سعودی عرب کے مہمان بھی تھے۔ سعودی عرب کے بادشاہوں اور پاکستان کے سیاستدانوں کے پاس اتنی دولت ہے کہ وہ ٹیکنالوجی کا انبار اپنے ملک بلکہ عالم اسلام اور بالخصوص پاکستان میں لگا سکتے ہیں۔ وہ کیوں ایسا نہیں کرتے۔ مسجد نبوی کی توسیع مبارک ہے اور ضروری ہے۔ خانہ کعبہ میں حجاج کے لئے سہولتیں اور مراعات بھی ٹھیک ہیں مگر اس بڑے اجتماع کو ایسا بنائیں کہ دنیا والے گھبرائیں کہ یہ تو متحد ہیں۔ کسی جگہ کسی مذہب میں اتنا بڑا اور منظم اجتماع نہیں ہوتا۔ میں مفتی ¿ اعظم سے بڑے ادب کے ساتھ پوچھتا ہوں کہ ان کی حیثیت بہت بڑی ہے۔ فرماں روائے حجاز بھی ان کی بات کو ٹال نہیں سکتا۔ انہوں نے جو باتیں کیں وہ دل کو لگتی ہیں، ان پر اپنے کولیگ بادشاہوں سے عمل کروائیں۔ 
انہوں نے فرمایا کہ غیر ملکی بنکوں سے پیسہ واپس لایا جائے۔ لگتا ہے کہ ان کا یہ اشارہ پاکستانی سیاستدانوں، حکمرانوں، جرنیلوں اور افسروں کی طرف ہے۔ عالم اسلام کے حکمرانوں اور شہزادوں کے بینک بیلنس بھی بیرون ملک ہیں۔ سعودی شہزادے تو لاکھوں ڈالر کی ٹپ ہوٹل کے ملازموں کو بخش دیتے ہیں۔ 
بہت اہم بات مفتی ¿ اعظم نے مسلم بلاک کے حوالے سے کی ہے یہ بہت ضروری ہے۔ لاکھوں لوگوں کا حج کے اجتماع میں جمع ہونا اس بلاک کی آرزو کی طرح ہے۔ سارے ملکوں، نسلوں، قوموں، رنگوں، زبانوں کے مسلمان جمع ہوتے ہیں اور کوئی تفریق نہیں ہوتی۔ وہ ایک ہی وردی میں ہوتے ہیں۔ اس سے ہمارے حکمران اور سیاستدان کوئی سبق سیکھیں۔ میں نے اپنے کالموں میں کئی مرتبہ اس طرف اشارہ کیا ہے۔ اس کے لئے بڑے تدبر، حکمت، جہدِ مسلسل اور قربانی کی ضرورت ہے۔ تاریخ میں یہ کوشش کی گئی ہے مگر امریکہ عالم اسلام میں نہ کوئی لیڈر زندہ رہنے دیتا ہے اور نہ کوئی پروگرام پورا ہونے دیتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اسلامک سمٹ لاہور میں کی تھی جسے اسلامی سربراہی کانفرنس بھی کہتے ہیں۔ یہ مسلم بلاک کا ابتدائیہ تھا جس میں مسلمان ملکوں کے حکمران تشریف لائے۔ بھٹو نے تیل کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ پاکستان کے علاوہ کئی مسلمان ملکوں میں ایٹمی ٹیکنالوجی کے فروغ کے بعد ایٹم بم بنانے کی تلقین کی۔ کئی مسلم ملک تو ایٹم بم خرید بھی سکتے ہیں۔ بھٹو کے مسلمان لیڈر ہونے کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہے کہ انہوں نے شاہ فیصل کو اپنا لیڈر بنایا تھا۔ شاہ فیصل ایک عظیم مدبر اور لیڈر تھے۔ وہ اور بھٹو مل کر عالم اسلام کو ایک ایسی قیادت دے سکتے تھے جو مغرب اور امریکہ کو حیران پریشان کر دے۔ امریکہ پریشان ہو گیا تھا اس نے شاہ فیصل کو اپنے ہی عزیز سے مروایا۔ وہ خود بھی مار دیا گیا۔ امریکہ صرف اپنا مفاد سامنے رکھتا ہے۔ اس کے لئے مفاد اور عناد ایک ہی چیز ہے۔ بھٹو کو پھانسی دلوا دی۔ جس جرنیل نے امریکہ کے لئے یہ کام کیا اسے بھی فضا میں جلا کے مروا دیا گیا۔ اس کا مطلب ہے کہ امریکہ جنرل ضیا سے بھی اتنا ہی خائف تھا جس قدر بھٹو سے ڈرتا تھا۔ جنرل ضیا سے کئی اختلاف ہیں مگر یہ اعتراف کرتے ہوئے مجھے کوئی خوف نہیں کہ وہ مسلم اُمہ کے لئے کوئی پروگرام رکھتے تھے۔ انہوں نے روس کو افغانستان سے نکالا۔ امریکہ کا ایک سپاہی اس جنگ میں نہ تھا مگر وہ اب افغانستان پر قبضہ کر کے اسے بھارت کے حوالے کرنا چاہتا ہے۔ جنرل ضیا ہوتے تو کلاشنکوف کلچر اور ہیروئن کلچر کبھی زور نہ پکڑتا۔ وہ امریکہ سے بھی نمٹ لیتے۔ کہتے ہیں شاہ عبداللہ میں شاہ فیصل والی صفات ہیں۔ ان صفات کا ظہور کب ہو گا، کیسے ہو گا؟

0 تبصرے:

اپنا تبصرہ تحریر کریں :-

ضروری بات : غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

Urdu Columns Pk
 
اُردو کالمز | #1 اردو کالمز بلاگ 2011 - 2014