اصغر خان سپریم کورٹ کے جرأت مندانہ اور عقلمندانہ فیصلے پر مبارکباد لے رہے ہیں۔ مگر وہ نہیں یاد کرتے کہ فوجی مداخلت کیلئے انہوں نے جنرل ضیا کو ایک منتخب وزیراعظم کی حکومت توڑنے کیلئے خط لکھا تھا۔ پاکستانی قوم پر نوابزادہ نصراللہ خان نے یہ ظلم کیا جنہیں بابائے جمہوریت کہا جاتا ہے۔ انہیں معلوم تھا کہ یہ امریکہ کی چلائی ہوئی مہم تھی۔ ملالہ کیلئے ملال ہے مگر اس سے فائدہ امریکہ اٹھانا چاہتا ہے۔ ایسے سب کام امریکہ نے پاکستان میں کرائے ہیں۔ لیاقت علی خان بھٹو صاحب جنرل ضیاءاور بینظیر بھٹو کو کس نے قتل کرایا اور پھر مقدمہ بھی نہیں چلنے دیا۔ ملالہ کے حملہ آور؟ جنرل ضیا نے اصغر خان کے کہنے پر نہیں امریکہ کے کہنے پر بھٹو کو عبرت کا نشان بنایا مگر خود عبرت کا نشان بن گیا۔ مارشل لا کا فائدہ اس نے خود اٹھایا۔ جبکہ اصغر خان حکمران بننا چاہتے تھے۔ ہمارے ہاں سارے پارٹی لیڈر سیاستدان حکمران بننے کیلئے نمبر ون امیدوار ہوتے ہیں اور اس کیلئے سارے نمبر دو کام کرنے کیلئے تیار ہوتے ہیں۔ وہ امریکہ کے حکم پر پاکستان کے خلاف بھی فیصلے کر دیتے ہیں۔
نوابزادہ نصراللہ کا بیٹا فوجی حکومت کا وزیر بنا۔ اصغر خان نے بھی اپنی حسرت بیٹے کو جنرل مشرف کا وزیر بنوا کے پوری کی۔ جنرل مشرف نے ان کے بیٹے کو قتل بھی کروایا۔ جس کا مقدمہ اصغر خان نے آگے نہ بڑھایا۔ تحریک استقلال بھی ختم ہو گئی۔ یہ ادھ موئی جماعت تحریک انصاف میں ضم ہو گئی۔ اللہ عمران خان پر رحم فرمائے۔ اس پر بھی ایجنسیوں سے رابطے کی سرگوشیاں بیانات بنتی رہتی ہیں۔ جن دنوں اصغر خان کے وزیراعظم بننے کے ازخود چانس تھے تو پیپلز پارٹی چھوڑ کر اعتزاز احسن تحریک استقلال میں چلے گئے۔ پھر وزیر شذیر بننے کیلئے پیپلز پارٹی میں واپس آ گئے۔ اب پیپلز پارٹی میں چانس نہیں تو وزیر شذیر بننے کیلئے نوازشریف کے قدموں میں آئیں گے۔ جھولی میں تو پہلے سے ہیں۔ نوازشریف تحریک استقلال میں رہتے تو وزیراعظم کیسے بنتے۔ جنرل ضیا کی خدمت کرنا بہت ضروری تھا۔ اگر بگتی‘ عابدہ حسین‘ خورشید قصوری‘ ڈاکٹر شیر افگن‘ نثار کھوڑو‘ ظفر علی شاہ‘ جاوید ہاشمی‘ گوہر ایوب اور کئی دوسرے اصغر خان کے ساتھی بن گئے اور پھر پانسہ پلٹنے پر واپس چلے آئے۔ یہ سیاسی چل چلاؤ جاری و ساری ہے جسے لوٹا بازی بھی کہتے ہیں۔ تحریک استقلال والا معاملہ تحریک انصاف کے ساتھ چل رہا ہے۔
اصغر خان نے ایک منتخب وزیراعظم بھٹو کو کوہالہ پل پر پھانسی دینے کا اعلان کیا تھا مگر یہ پھانسی پنڈی جیل میں دی گئی۔ اس کی یادوں سے حکمران ڈرتے تھے۔ وہ جیل مسمار کر دی گئی ہے۔ ان کی لاش سے بھی خوفزدہ تھے۔ چند لوگوں نے ان کی نماز جنازہ پڑھی۔ بھٹو کے وزیر اور پارٹی کے وزیر اور حکمران کہاں تھے کہاں ہیں۔ وہ بھٹو کی شہادت کو اقتدار کیلئے ایک ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اب بینظیر بھٹو کیلئے بھی یہی طرز سیاست ہے۔ اب کس بھٹو کی باری ہے۔ اللہ ان کی حفاظت کرے۔ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ اس دور میں جمہوریت سے جو انتقام لیا گیا ہے وہ بہت عبرتناک ہے اس میں سارے سیاستدان شریک ہیں۔
میرے ایک پرانے کلاس والے اورینٹل کالج سٹوڈنٹس یونین کے صدر برادرم ظہیر انصاری نے کہا کہ یہ فیصلہ جرنیلوں کے خلاف سپریم کورٹ نے دیا ہے۔ رقم تقسیم کرنے والے سزا کے مستحق ہیں تو رقم وصول کرنے والے بھی اتنے ہی مجرم ہیں۔ حامد میر نے نوازشریف کی صفائی پیش کی ہے کہ موجودہ حکومت میں شامل شخص نے کہا کہ میرے سامنے نوازشریف نے رقم لینے سے انکار کر دیا تھا۔ وہ وہاں کیوں تھا۔ اس بندے کا نام نہیں بتایا گیا تو یہ پورا سچ نہیں ہے۔ مہران بنک سکینڈل تو ہے اور پھر نوازشریف آئی جے آئی کی کوششوں کے نتیجے میں وزیراعظم بنے تھے۔ یہ تو اصل ٹارگٹ تھا۔ اب کون سا دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو گا۔ سیاسی حوالے سے بات کریں تو سفید رنگ کے پانی کو دودھ کہتے ہیں۔ اس سے بڑا ثبوت کیا کہ نوازشریف کی حکومت آئی جے آئی بننے کے بعد وجود میں آئی۔ یہ بھی ہو چکا ہے کہ صدر اسحاق نے ہی یہ حکومت توڑ دی۔ یہ عہدہ ساری رقم سے زیادہ قیمتی اور اہم ہے۔ صدر اسحاق کی نگرانی میں رقم تقسیم ہوئی تھی اور انہوں نے ہی اپنی بنائی ہوئی نوازشریف کی حکومت بینظیر بھٹو والے الزامات کے تحت کیوں توڑ دی۔ نوازشریف یقیناً صدر غلام اسحاق کے مقاصد پر پورے نہیں اترے ہوں گے۔ جنرل اسلم بیگ مارشل لا لگا سکتے تھے مگر یہ امریکہ کی اجازت کے بغیر نہیں لگ سکتا۔ اعجاز الحق اب ضیا الحق کا الزام بیگ صاحب پر لگا رہے ہیں۔ وہ پہلے کہاں تھے۔ بی بی تو چپ چاپ چلی گئی۔ مگر نوازشریف صدر اسحاق کو ساتھ لے کے گئے۔ یہ بہت جرا¿ت مندانہ عمل تھا۔ سویلین صدر اتنا طاقتور نہیں ہوتا۔ صدر اسحاق کو بھی ایجنسیوں کی حمایت حاصل تھی مگر ہمارے سیاستدانوں کو پتہ نہیں چلتا وہ صرف اقتدار کی غرض میں گرفتار ہوتے ہیں۔ صدر زرداری کی طاقت بھی ایک مسلمہ ہے۔ بینظیر بھٹو اور نوازشریف کو دو بار نکالا گیا مگر وہ ایک سوراخ سے دو بار ڈسے گئے۔ اب تیسری باری کیلئے تیاری ہے اور یہ بھی ایجنسیوں کی حمایت سے ممکن نہیں۔ ریٹائرڈ جرنیلوں کے ساتھ ”ریٹائرڈ“ سیاستدانوں کو بھی شامل کیا جائے۔ مگر کیا اب تک کوئی سیاسی حکومت کسی جرنیل کے خلاف کوئی کارروائی کر سکی ہے۔ جنرل مشرف کے خلاف ریڈ وارنٹ کے باوجود کوئی کارروائی نہیں ہو سکی۔ حکومت اور اپوزیشن والے بظاہر ان کے خلاف کارروائی کیلئے بیانات دیتے رہتے ہیں۔
کہتے ہیں یہ فیصلہ فوج کیلئے پریشانی کا باعث ہے تو جنرل اسلم بیگ کو پیپلز پارٹی نے تمغہ جمہوریت کیوں دیا تھا اور جنرل اسد درانی کو وعدہ معاف گواہ بنا کے حلفیہ بیان لیا گیا اور جرمنی میں سفیر لگا دیا گیا۔ سیاست میں اصول اخلاق غیرت اور روایت کا کوئی گزر نہیں۔ حسین حقانی نے نوازشریف کے میڈیا سیل میں رہتے ہوئے بینظیر بھٹو کی قابل اعتراض تصویریں جہازوں سے گرائیں۔ بینظیر بھٹو بعد میں اس پر بہت راضی رہیں اور ان کے جانشین شوہر صدر زرداری نے انہیں امریکہ میں پاکستانی سفیر بنا دیا۔ کئی کروڑ روپے کے خفیہ فنڈ ان کی صوابدید پر تھے۔ ان کا حساب کون لے گا۔
صدر اسحاق تو فوت ہو گئے۔ یہ فیصلہ صدر زرداری کے خلاف ہے۔ ایوان صدر سیاسی طور پر استعمال کرنے پر ان کے خلاف مقدمہ چلاؤ۔ اس سے پہلے اصغر خان پر مقدمہ چلاؤ کہ انہوں نے جرنیلوں کے ساتھ مل کر سیاست کی۔ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف بڑھکیں تو مار ر ہے ہیں مگر کریں گے کیا۔ کیا صدر زرداری سے ایک عہدہ واپس لیں گے اور انہیں صدر فضل الٰہی بننے پر مجبور کریں گے۔ ایوان صدر سے جرنیلوں کے خلاف حسین حقانی اور ججوں کے خلاف ملک ریاض کو بری طرح استعمال کیا گیا۔ سیاسی سیل تو بہت چھوٹی بات ہے۔ صدر زرداری سب پر بھاری کا نعرہ اپوزیشن نے ایجاد کیا اور جیالوں نے عام کر دیا۔ اب یہ نعرہ بھی سب نے سنا ہو گا۔ ججوں‘ جرنیلوں اور سیاستدانوں نے بھی سنا ہو گا۔ صدر زرداری اگلی باری بھی ہماری۔ اس وقت کامیاب ترین سیاستدان صدر زرداری ہیں اور پھر منظور وٹو ہیں۔
0 تبصرے:
اپنا تبصرہ تحریر کریں :-
ضروری بات : غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے ۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔