میرے پرسوں کے کالم میں میری کتاب سفر نامۂ ہند”مندر میں محراب“ کا نام غلط شائع ہو گیا ہے۔ اصل میں یہ بھارت کا سفرنامہ ہے۔ میں ایک ہی بار بھارت گیا تھا اور پھر اپنی کتاب کی وجہ سے نہ جا سکا کہ بھارت نے مجھ پر پابندی لگا دی۔ میری محبت بھارت کے سفر میں میرے اندر امڈتی رہی۔ لیکن میرے خیال میں بھارت کا سفر ایک بار کرنا چاہئے۔ میرے اندر پاکستان سے محبت کی فراوانیوں اور حیرانیوں کے کئی مزید چراغ جل اٹھے جو کبھی بجھ نہیں سکتے۔ کچھ لوگوں نے بھارت کا سفر ایک ادبی اور سیاسی وطیرہ بنا لیا ہے۔ ایک بار ادبی لوگوں کے سامنے ہندو مسلسل پاک بھارت سرحد کو لکیر کہہ کر اپنی خشونت کا اظہار کر رہے تھے۔ خیالوں خوابوں شعروں گیتوں اور ادب پاروں کی سرحد نہیں ہوتی۔ تو مرحوم ممتاز شاعر ضمیر جعفری نے ایک ہی جملے میں ان کی ہوا نکال دی۔ ادب کی سرحد نہیں ہوتی مگر ادیب کی سرحد تو ہوتی ہے۔ بھارت میں ادب لکھنے والے کو بھارتی ادیب کہا جائے گا تو پاکستان میں لکھنے والے کو پاکستانی ادیب ہی کہا جائے گا۔ کسی کا ادب عالمگیر اور ہمہ گیر ہو سکتا ہے مگر اس کا تعلق جس علاقے سے ہو گا اس کی معرفت سے اس کی پہچان بنے گی۔
علامہ اقبال پاکستان سے پہلے فوت ہو گئے مگر پاکستانیوں نے انہیں اپنا قومی شاعر بنا لیا ہے تو وہ پاکستانی شاعر ہیں۔ بلکہ نظریہ پاکستان دینے والے بھارت کی دوستی میں تڑپنے والے بھارت سے کہہ کر وہ تنازعے حل کرا دیں جن کے ذکر کے بغیر ہی ہم اس کی دوستی کے دھوکے میں مبتلا ہوئے جا رہے ہیں۔ ایک جنگ بھارت کے ساتھ ہو گی اور ہم بغیر لڑے ہی یہ جنگ جیت جائیں گے۔ محترم مجید نظامی نے صدر ضیا کی بھارت کیلئے دعوت پر کہا تھا کہ اگر تم ٹینک پر بیٹھ کر جا رہے ہو تو میں تمہارے ساتھ چلنے کو تیار ہوں۔ ٹینک سے بھارتی ایجنٹ بڑے پریشان ہوئے مگر وہ امریکی تھنک ٹینک پر غور نہیں کرتے۔ امریکی سوچ بچار کے حوالے سے بھی ٹینک ضروری سمجھتے ہیں۔ یہی سوچ بچار سے بے چارے مسلمانوں اور انسانوں کیلئے عذاب بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
میرے ایک بابا جی پچھلے دنوں اپنے عزیزوں سے ملاقات کیلئے بھارت گئے۔ بابا عرفان الحق عرفان و آگہی کے پیکر ہیں۔ بہت تخلیقی اور بامعنی گفتگو کرتے ہیں۔ ان کی گفتگو میں گمشدہ آرزو اپنا پتہ دیتی ہے۔ وہ اپنے عزیزوں کے شہر سہارنپور سے باہر نہ نکلے۔ یہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ یہ مدرسوں کا شہر ہے۔ یہاں ایک ہزار سے زیادہ درس گاہیں ہیں۔ میں نے پوچھا بھارت میں مسلمانوں کی حالت کیسی ہے۔ انہوں نے برجستہ فرمایا کہ وہ پورے مسلمان ہوں گے تو ان کی حالت بھی اچھی ہو گی۔ مسلمان وہاں غریب ہیں۔ ہندو ان سے بھی زیادہ غریب ہیں۔ آبادی بہت ہے اور اسے صحیح طرح ہینڈل نہیں کیا گیا۔ چین میں بھارت سے زیادہ لوگ ہیں مگر وہاں انتظام ایسا کیا گیا ہے کہ کوئی خرابی نہیں ہوئی۔ بھارت میں ریلوے کا نظام اچھا ہے مگر ٹرینوں میں احتیاط کرنا پڑتی ہے کہ آپ کے پاؤں کسی کے اوپر نہ پڑ جائے۔ گداگر اب پاکستان میں بھی بہت ہیں مگر بھارت میں بہت زیادہ ہیں۔ ہر جگہ لاشوں کی طرح لوگ پڑے ہوتے ہیں۔ ان کی آنکھوں میں سوال کے چراغ بھی بجھ گئے ہیں۔ بھارت میں گندگی بہت ہے۔ صفائی کا تصور ہی نہیں۔ وہاں لوڈشیڈنگ پاکستان سے کم نہیں۔
سہارنپور میں بابا جی نے محسوس کیا کہ وہ لوگ تبلیغ کے بہت شوقین ہیں۔ جبکہ ضرورت عمل کی ہے۔ رسول کریم کا کوئی خطاب دس پندرہ منٹ سے زیادہ کا نہیں۔ کوئی حدیث دس پندرہ سطروں سے زیادہ کی نہیں۔ ان کی زندگی جہد مسلسل کا آئینہ ہے۔ تبلیغ اگر کرنا بھی ہے تو وہ رسول کریم کے طریقے کے مطابق ہو اور رسول کریم تبلیغ کو اپنی عملی زندگی سے مربوط رکھتے تھے۔
بابا جی عرفان الحق نے ایک نارمل سے شہر سہارنپور کے نیشنل میڈیکل کالج میں امن کے موضع پر ایک لیکچر دیا۔ جسے بہت توجہ سے سنا گیا۔ بابا جی نے فرمایا جو چیز آپ اون نہیں کرتے جسے اپناتے نہیں۔ اپنے اندر امن کی کیفیت محسوس نہیں کرتے تو معاشرے کو کیسے دیں گے۔ اپنے ہمسائے کو کیسے دیں گے۔ اسے اپنی ذاتی زندگی سیاسی معاشرتی اور بین الاقوامی زندگی میں کیسے رائج کر سکتے ہیں۔ اس کیلئے تین چیزیں ضروری ہیں۔ یہ باتیں بابا جیسے اعلیٰ دل و دماغ والے حکمت بصیرت اچھائی اور بھلائی کے رازوں سے بھرے ہوئے آدمی کی زبان سے ادا ہو سکتی ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ کسی سے موازنہ نہ کرو۔ تم خود اپنا نصیب نہیں لکھتے ہو ٹیلنٹ دینے والا کوئی اور ہے۔ کسی سے مقابلہ نہ کرو اور کسی کی شکایت نہ کرو۔ آدمی کے اندر سکون ہو گا تو وہ باہر بھی سکون پائے گا اور پھیلائے گا۔ رسول کریم حضرت محمد رحمت اللعالمین ہیں۔ ان کا خدا رب العالمین ہے۔ سارے زمانوں‘ سارے جہانوں‘ سارے انسانوں کا رب اور اس کا رسول رحمت ہی رحمت۔ سب کیلئے رحمت اس میں کوئی تخصیص نہیں تفریق نہیں۔ اس زمانے میں لوگوں کو ہلاک کرنے والے ہتھیاروں میں سے ایک بھی مسلمانوں نے ایجاد نہیں کیا۔ ہم نے ایٹم بم بنایا مگر ایجاد نہیں کیا۔ اپنے دفاع کیلئے بنایا۔ رسول عالم نے فرمایا اپنے گھوڑے تیار رکھو۔ ہمارے رسول نے بہت جنگیں لڑیں اور سب اپنے دفاع کیلئے لڑیں۔ صرف مکہ شہر پر چڑھائی کی کہ اس اپنے شہر سے انہیں ذلیل و خوار کر کے نکالا گیا مگر یہ جنگ بابا جی عرفان الحق کے بقول آپنے بغیر لڑے جیت لی۔ جس غزوۂ ہند کی طرف اشارہ کیا گیا ہے‘ وہ بھی بغیر لڑے جیت لی جائے گی۔ غزوہ وہ جنگ ہے جس میں آپ بنفس نفیس شرکت کرتے ہیں اور شرکت کی کئی قسمیں ہیں۔ یہ غزوۂ ہند ہے اور یہ غور طلب نقطہ ہے۔
0 تبصرے:
اپنا تبصرہ تحریر کریں :-
ضروری بات : غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے ۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔