کہتے ہیں حادثہ ایک دم نہیں ہوتا.... برسوں سے پلاننگ ہو رہی ہوتی ہے۔ اس کے باوجود حادثہ ایک دم اثرانداز ہوتا ہے اور جڑوں تک ہلا کے رکھ دیتا ہے۔
یہ بھی درست ہے کہ ہماری قوم جذباتی ہے۔ وہ جتنا وقت حادثے کے ہو جانے پر واویلا کرنے اور رونے پیٹنے میں صرف کرتی ہے۔ اس سے چوتھائی کاوش بھی اس کے عوامل اور وجوہات پر صرف نہیں کرتی۔ ایک سنجیدہ قوم کی طرح بیٹھ کر یہ نہیں سوچتی کہ ایسا کیوں کیا گیا....؟ اور اب آگے کیا ہو گا....
قوم ایک جسم کی مانند ہوتی ہے.... اور مارنے والا تاک کر ایسے حصے پر ضرب مارتا ہے۔ جہاں چوٹ لگنے سے بندہ بلبلا اٹھے۔ چیخ اٹھے....
ایک ایسے موسم میں جب اسلام کے خلاف دلآزار فلم بنانے کا ردعمل سارے عالم اسلام میں ہو رہا تھا اور درست سمت میں ہو رہا تھا.... اور یہ ردعمل اب رکنے والا بھی نہیں ہے۔ اس نے جاری رہنا ہے۔ ایسے میں پاکستان کے اندر ایک اور حادثہ بپا کیا گیا.... تاکہ بلبلاتی اور غیض و غضب میں بھری ہوئی قوم کا رخ دوسری طرف موڑ دیا جائے....
اس مذموم کام کیلئے آخر ملالہ کو ہی کیوں تاکا گیا....؟
ایک معصوم بچی کو نشانہ بنا کے کیا مقاصد حاصل کرنے کا پروگرام تھا....؟
ایک اور بات کی وضاحت یہاں ضروری ہے۔ یہ کہا گیا کہ ملالہ کے شور میں دوسری دو بچیوں شازیہ اور کائنات کو نظرانداز کر دیا گیا....
شروع میں یہ اسلئے ہوا کہ میڈیا نے خبر ہی ایسی لگائی تھی کہ گولی صرف ملالہ کو لگی ہے۔ باقی دونوں بچیاں بعافیت ہیں۔ تاہم یہ کہنے میں ابھی تاخیر نہیں ہوئی کہ شازیہ اور کائنات بھی ہمارے لئے اتنی ہی قیمتی اور عزیز ہیں۔ ان کی وقعت بھی ملالہ کے برابر ہے۔ اور ان کیلئے بھی ویسے ہی حفاظتی انتظامات کئے جائیں۔ ان کا علاج معالجہ بھی سرکاری سطح پر کیا جائے۔ ان کے گھر کے باہر بھی سکیورٹی گارڈ مقرر ہو۔
یہ بھی کہا گیا کہ یہ ڈرون حملوں کا ایک اور ردعمل ہے۔
اس میں شک نہیں کہ ڈرون حملے ایک نحوست کی طرح پاکستان میں داخل ہو گئے ہیں۔ روز پارلیمنٹ کے اندر ان کے خلاف آواز اٹھائی جاتی ہے۔ ان بدبخت ڈرون حملوں نے ملالہ جیسی کئی بچیوں کے اعضا کھلونوں کی طرح کرچی کرچی کئے۔ کھیلتے بچوں کو اپاہج کر دیا۔ کئی گھر برباد کئے۔ کئی سکول مسمار کئے....
یہ حملے کب بند ہوں گے.... اب تک کیوں جاری ہیں.... کسی کے پاس اس کا جواب نہیں ہے۔ جب پرویز مشرف سے پوچھا جاتا ہے تو وہ صاف کہتے ہیں۔ میں نے ان کی اجازت نہیں دی تھی۔ اگر دی تھی تو پھر موجودہ حکومت بند کیوں نہیں کروا دیتی.... اس کیوں کا کسی کے پاس جواب ہے؟.... دوسری طرف سے آواز آتی ہے کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن راتوں رات نہیں ہو سکتا.... تو کیا دہشت گردی کی اس جنگ میں اب پاکستان کو یہ صلہ ملے گا؟....
ڈرون حملوں میں کئی گھر اجڑ گئے۔ کئی نونہال جاں سے گئے.... ہر فورم پر ان کا ملال بھی ہوتا رہا.... مگر ملالہ کے حادثے نے قوم کو چونکا کر رکھ دیا۔ اسلئے کہ یہ حادثہ دن دہاڑے.... بڑی ڈھٹائی سے امن کے دنوں میں کیا گیا....
سوال وہی ہے کہ یہ قوم سوال سے آگے جائے گی کہ نہیں....
وزیر صاحب متعدد لوگوں کی گرفتاری کی خوشخبریاں دے رہے ہیں۔
آخر ہماری قوم اپنی ساری توانائیاں صرف رونے پیٹنے‘ نعرے لگانے‘ بینر لٹکانے اور بیان دینے پر ہی کیوں خرچ کر دیتی ہے۔ اپنے آپ کو اتنا تھکا لیتی ہے کہ پھر تھک ہار کر بیٹھ جاتی ہے.... ہر روز نئے نرالے ایس ایم ایس وصول ہونے لگتے ہیں۔ فلاں ملوث ہے.... فلاں کا منصوبہ ہے‘ کوئی کچھ بھی کہے سب اجازت ہے....
کیا حکومتی سطح پر کوئی ایسا تھنک ٹینک نہیں بنایا جا سکتا.... جو ہمیشہ ایک گوشہ¿ عافیت میں بیٹھا رہے اور گزرنے والے واقعات کی سیاسی‘ معاشی‘ سماجی اور نفسیاتی توضیح تلاش کرتا رہے۔ یہ جو وزیر وغیرہ ہوتے ہیں۔ یہ دوسرے اداروں کے دستِ نگر ہوتے ہیں۔ ان کو دائیں بائیں سے جو خبریں ملتی ہیں‘ انہی کے بیان بنا کے تقسیم کرتے رہتے ہیں۔
ساری دنیا پھر نئے سرے سے پاکستان کو ایک دہشت گرد کہنے لگ گئی ہے....
ابھی ہم پہلی بدنامیاں نہیں دھو سکے تھے.... کہ ایک اور داغ لگ گیا ہے۔ اس واسطے حکومت کیلئے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کیلئے ضروری ہو گیا ہے کہ مجرموں کو تلاش کیا جائے اور وہ کون تھے اور انہوں نے ملالہ کو ہی نشانہ کیوں بنایا۔ قوم کو بتایا جائے....
ظاہر اس قابل نفرت حرکت میں جو بھی لوگ ملوث تھے۔ ان کے کثیر مقاصد تھے۔
ایک تو وہ دنیا کو پاکستان کا بدترین چہرہ دکھانا چاہتے تھے۔
دوسرے وہ تعلیمی ارتقا کو روکنا چاہتے تھے....
تیسرے وہ نئی نسل کو اسلام سے متنفر کرنا چاہتے تھے۔
اللہ کرے کہ ملالہ روبصحت ہو کر زندگی کے عمل میں شامل ہو جائے تاکہ ان کی نسل کو ایک نیا پیغام بھی مل جائے۔ لیکن ہمارے ہاں بھی سنجیدگی سے غور کرنے کی ایک رسم شروع ہو جانی چاہئے۔ یہ درست ہے کہ تشویشناک باتوں پر بہت تشویش ہوتی ہے.... مگر کسی بھی معاملے میں شدت آ جانے سے عمل میں کمی آ جاتی ہے۔ عمل تیز ہونا چاہئے اور شور و غوغا کم....
سردی کا موسم شروع ہونے والا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سوات اور اس کے قرب و جوار لڑکیوں اور لڑکوں کے سکولوں میں سکیورٹی کا مناسب بندوبست کیا جائے۔ لوگوں کے دلوں سے خوف دور کیا جائے اور یہ معاملہ وزارت داخلہ کے اہم ترین منصوبوں میں شامل ہو.... یہ وہ وقت ہے جب پاکستان کی ساری قوتوں کو متحد ہو کر حالات کا تجزیہ کرنا چاہئے‘ سیاسی قوتیں‘ مذہبی قوتیں‘ عسکری قوتیں اور میڈیا کی قوتیں مل بیٹھ کر اس کیوں کا جواب تلاش کریں جو آج ہر پاکستانی کے ذہن میں ہے۔
0 تبصرے:
اپنا تبصرہ تحریر کریں :-
ضروری بات : غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے ۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔