Share
"اُردو کالمز" بلاگ پر خوش آمدید۔ بلاگ کو زیادہ سہولت کیساتھ ڈائنامک ویو (Dynamic View) میں دیکھنے اور پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں:

Wednesday, October 31, 2012

اکتاہٹ میں لکھا گیا کالم


سیاسی دھما چوکڑیوں کے درمیان کالم لکھتے لکھتے اکتا جاتا ہوں تو سستانے کیلئے ادھر ادھر نکل جاتا ہوں مگر جو بات بھی ذہن میں آتی ہے اس پر سیاست کا رنگ چڑھ جاتا ہے اب تو یہ رنگ ترنگ بنتا جا رہا ہے زنگ آلود سیاسی سرگرمیوں میں کم نہیں آتی۔ شہباز شریف جرمنی گئے تو جرمنی زبان میں تقریر کی ۔ لوگ حیران رہ گئے۔ ورنہ اب لوگ سیاستدانوں کی تقریریں سن سن کر پریشان ہوتے رہتے ہیں۔ پھر بھی تقریریں سننے کیلئے پہنچ جاتے ہیں ۔ یا پہنچا دیئے جاتے ہیں۔ شہباز شریف کو کئی زبانیں آتی ہیں۔ غالباً ترکی بھی انہیں آتی ہے۔ وہ ترکی آتے جاتے رہتے ہیں وہاں کا کلچر بھی پنجاب میں لے آنا چاہتے ہیں۔ وہاں ان کا بزنس بھی ہے۔ خدانخواستہ اب جلاوطنی کی کوئی صورت بنی تو وہ سعودی عرب کی بجائے ترکی جائیں گے سعودی عرب انہیں نواز شریف لے کے گئے تھے سنا ہے وہ نہیں جانا چاہتے تھے۔ نجانے کتنے کام ہیں جو وہ نہیں کرنا چاہتے اور بڑے بھائی کیلئے قربانی دیتے چلے آ رہے ہیں۔ اس میں یہ بات بھی ہے اور یہ بڑی بات ہے کہ شہباز شریف نے وزیراعظم بننے کی پیشکش بھی ٹھکرا دی۔ یہ شریف فیملی کے مستقبل کیلئے ضروری تھا۔ شریف برادران کے علاوہ سیاست میں چودھری برادران کی مثال ہے چودھری شجاعت اور چودھری پرویز الٰہی کزن ہیں مگر بھائیوں سے بڑھ کے ہیں۔ اب کے شہبا زشریف نواز شریف کو ترکی لے کے جائیں گئے ان کی ترکی زبان ہمیں سمجھ آ جائے گی کیونکہ ترکی زبان بھی علی بابا چالیس چوروں پر تنقید ضروری ہوگی۔ ہم میں سے کوئی یہ نہیں کہہ سکتا۔
زبانِ یار من ترکی ومن ترکی نمی نم 
ترکی میں یہی بات موجودہ وزیراعظم ترکی سے سٹیج پر سینئر پاکستانی سٹیزن کا ایوارڈ لیکر کہی تو وہ حیرت سے ان کا منہ دیکھنے لگے۔ پتہ نہیں انہیں سمجھ آئی تھی یا نہیں کیونکہ یہ فارسی ہے وہ کہہ سکتے تھے من فارسی نمی دانم لیکن....
ترکی سیکھنے سے زیادہ لوگوں کی دلچسپی ”یار من“ میں ہے کہ وہ کون ہے۔؟ 
بات جرمن زبان کی ہو رہی تھی۔ مجھے جرمنی پسند ہے کہ وہ ”اقبال“ کا علمی شہر بھی ہے۔ جرمنی کے فلاسفروں اور شاعروں سے اقبال متاثر رہا۔ شہباز شریف بھی اقبال کو پسند کرتے ہیں۔ نیٹشے کا بہت ذکر اقبال کے ہاں ملتا ہے علم و ادب اور فکر و خیال سے تعلق رکھنے والے جرمن سکالر تصوف کے قریب ہیں مقتول گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے والد ڈاکٹر محمد دین تاثیر اقبال کے بہت عقیدت مند تھے وہ کسی یورپی عورت سے شادی کرنا چاہتے تھے۔ علامہ اقبال کے پاس گئے تو اقبال نے کہا کہ اگر باہر شادی کرنا ہے تو جرمن خاتون کے ساتھ کرو۔ دنیا میں سب سے وفادار خاتون جرمن ہے اور سب سے طاقتور خاتون عرب خاتون ہے سب سے کمزور اور کنفیوز امریکی خاتون ہے۔ مگر ڈاکٹر تاثیر نے ایک برطانوی خاتون سے شادی کی۔ وہ فیض کی بیوی ایلس فیض کی بہن تھی ایلس کی بجائے وہ اپنے مسلمان نام بلقیس کے طور پر معروف ہوئیں۔ سلمان تاثیر نے اگر اپنے عظیم والد سے کچھ نہیں سیکھا تھا تو کاش وہ کچھ اپنی بہت سادہ اور مہرباں ماں بلقیس سے سیکھ لیتے میری ملاقات ایلس اور بلقیس سے تھی اور میں نے محسوس کیا کہ بلقیس بہت اچھی عورت تھی وہ مکمل پاکستانی تھی۔ اور ہم سے بہتر مسلمان تھی۔ ایلس کے بارے میں ایسا کچھ کہنے سے قاصر ہوں۔ سٹیج اور ٹی وی چینل کی ایک سوبر اور ہر دل العزیز آرٹسٹ روبی انعم نے بے دھیانے میں ایک بات کہی ہے۔ جو بامعنی بھی ہے اور معنی خیز بھی ہے۔ ”انڈیا کی فلم انڈسٹری کو بالی ووڈ کہتے ہیں۔ اس کے مقابلے ہماری پاکستانی فلم انڈسٹری لاابالی وڈ کہہ سکتے ہیں“۔ 
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ 
شرمیلا فاروقی نے کہا کہ شازیہ مری بہت میک اپ کرتی ہیں ان سے پوچھا جائے کہ وہ ایسی سیاستدان خاتون کا نام لیں جو میک اپ نہیں کرتی۔ شرمیلا فاروقی نے ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کے لئے ٹھیک کہا کہ وہ طاقتور خاتون سیاستدان ہیں۔ کشمالہ طارق تو اس راز سے واقف ہیں۔ شیری رحمان ایک ہی سازش کے واقعے کے بعد مستعفی ہو گئی۔ مگر فردوس عاشق اعوان نے بھری کابینہ میٹنگ میں باقاعدہ روتے ہوئے وزارت چھوڑنے کی صرف التجا کی۔ عورت کے پاس اپنی طاقت کے اظہار کے لئے سوائے رونے کے اور کوئی طریقہ نہیں ہے۔ اس کے بعد انہیں کوئی وزارت اطلاعات سے فوری طور پر نہ ہٹا سکا۔ انہیں اس وزارت سے آصف ہاشمی نے ہٹوایا ہے کہ اس نے ہی فردوس صاحبہ کو وزیر بنوایا تھا۔ وہ کہتے ہیں میںنے انہیں ڈس انفارمیشن منسٹر بنوایا تھا۔ انہوں نے خواہ مخواہ انفارمیشن منسٹر بننے کی کوشش کی۔ 
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ 
بے نام وکیل اور ناکام سیاستدان اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ لوگ چھریاں لے کے پیپلز پارٹی کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ سب سے بڑا چھرا خود اعتزاز احسن کے پاس ہے۔ اس نے نااہل اور کرپٹ وزیراعظم گیلانی کا کام تمام کر دیا۔ ڈاکٹر بابر اعوان بھی اس کی زد میں آئے مگر وہ کسی اور چھری سے گھائل ہو گئے ہیں۔ اعوان صاحب نے بھی اپنی وزارت عدالت کے اندر قربان کی۔ یہ قربانی بھٹو صاحب کے لئے تھی۔ گیلانی صاحب کی قربانی صدر زرداری کے لئے تھی۔ وہ صرف زرداری صاحب ہوتے تو گیلانی صاحب کبھی قربانی نہ دیتے بھٹو صاحب تو شہید ہو چکے ہیں۔ 
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ 
دلیر اور دل نواز مولوی حافظ حسین احمد نے کہا ہے کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن کے لئے راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ ملالہ کے لئے ملال کے اظہار کے بعد فاروق ستار نے بھی یہ مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے یہ بات کی ہے کہ پاکستان کو خطرہ ہے۔ حافظ صاحب نے فاروق ستار سے پوچھا ہے کہ کیا یہ خطرہ پاکستانی ایٹم بم کو ہے۔ نوائے وقت میں یہ خبر حافظ صاحب کے حوالے سے شائع ہوئی ہے کہ آج کل قوم سلالہ، ملالہ اور حلالہ کے گرداب میں پھنسی ہوئی ہے۔ 
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ 
ڈاکٹر آصف جاہ ایم بی بی ایس ہیں۔ مقابلے کا امتحان پاس کرکے بیورو کریٹ بنے ہیں۔ انہیں کسٹم کا محکمہ ملا ہے۔ آج کل میڈیکل کے شعبے سے کئی ڈاکٹر سی ایس ایس کرکے افسر بنے ہوئے ہیں۔ وہ اس کے بعد ڈاکٹری وغیرہ بھول جاتے ہیں۔ ڈاکٹر آصف جاہ افسر ہونے کے بعد ایک بہت درد مند اور ہنر مند ڈاکٹر ہیں۔ انہوں نے مختلف آفات کے دنوں میں دن رات ایک کئے۔ کشمیر میں زلزلہ سے مصیبت کا شکار خواتین و حضرات ہوں، سیلاب کے عذاب میں مبتلا بستیاں ہوں، خیبر پی کے، بلوچستان اور سندھ کے دور آباد علاقے ہوں۔ وہ دواﺅں، دعاﺅں اور ڈاکٹروں کی ٹیم کے ساتھ پہنچے۔ وہ خود اپنے خرچے پر ٹی وی ٹیم بھی لے گئے۔ بالخصوص پنجاب ٹی وی کے لئے ان کی خدمات ہمیشہ حاضر رہی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے ان تجربات و مشاہدات پر مشتمل کتابیں بھی لکھی ہیں۔ وہ ایک حیرت انگیز فلاحی شخصیت ہیں۔ میں انہیں سلام کرتا ہوں۔

0 تبصرے:

اپنا تبصرہ تحریر کریں :-

ضروری بات : غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

Urdu Columns Pk
 
اُردو کالمز | #1 اردو کالمز بلاگ 2011 - 2014