Share
"اُردو کالمز" بلاگ پر خوش آمدید۔ بلاگ کو زیادہ سہولت کیساتھ ڈائنامک ویو (Dynamic View) میں دیکھنے اور پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں:

Wednesday, October 31, 2012

اصغر خان پٹیشن


ہر وہ شخص جو قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتا ہے ،عدلیہ کے ہر فیصلے پر سر تسلیم خم کر ےگا۔ خصوصاً ایک ایسے ماحول میں جب ماضی کی ڈوگر کورٹس کے برعکس عدالت عظمیٰ کے موجودہ ججز نہایت قابل احترام ہیں۔ جنرل مرزا اسلم بیگ اور جنرل اسد دورانی کے ا س اعتراف کے بعد کہ انہوں نے ملک کے سپریم کمانڈر اور ریاست کے ایک بظاہر دیانتدار صدر کے حکم پر سیاستدانوں میں وہ فنڈز تقسیم کئے جو انہوں نے سرکاری خزانے کی بجائے ایک پرائیویٹ بینک سے لئے تھے تو پھر بھی سپریم کورٹ کے پاس موجودہ فیصلے سے ہٹ کر کوئی حکم صادر کرنے کی گنجائش بہت کم تھی۔ اس لئے مسلم لیگ (ن) سمیت ملک کی ساری سیاسی جماعتوں نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا۔ مسلم لیگ(ن) کی صرف استدعا یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ نے اپنے حکم میں اس معاملے میں بظاہر سیاستدانوں کی تفتیش کرنے کیلئے جسFIAکا ذکر کیا ہے اس سے مراد وہ فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی ہے جو پیشہ ورانہ دیانتداری ، غیر جانبداری اور خدا خوفی سے اس معاملے کی تفتیش کر سکے بدقسمتی سے ایسا نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو ظاہر ہے کسی کیلئے بھی اپنے تحفظات کا اظہار کرنے کی کوئی گنجائش موجودہ نہ ہوتی لیکن عدالت کے چیف جسٹس سمیت تمام ججز اورپاکستانی عوام اس بات کے گواہ ہیں کہ موجودہ FIA کی غیر جانبداری پر سپریم کورٹ نے تقریباً ہر مقدمے میں بار بار اعتراضات کئے۔ سٹیل ملز کیس کی سماعت کے دوران تو چیف جسٹس نے انتہائی ملا ل میں ایف آئی اے کے ڈی جی کو تبدیل کرنے کو کہا۔ اسکے علاوہ ارسلان کیس سمیت ہر اہم مقدمے میں سیاست کی بھینٹ چڑھے ہوئے موجودہ کسی ادارے پر بھی کسی کا یقین نہیں۔ بدقسمتی سے NABکے ادارے میں بھی پہلے زور و شور سے ہر اہم عہدے پر سیاسی بھرتیاں ہوئیں ،اسی لئے NABکے چیئرمین کے سامنے چیف جسٹس نے ادارے کی کارکردگی پر مایوسی کا اظہار کیا۔ اس لئے جب یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں ایجنسی یا فلاں جج سے ہمیں انصاف کی توقع نہیں تو اس بنیادی حق کو مانتے ہوئے اور انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ملزمان کی بات سنی جاتی ہے یہ توہین عدالت کے زمرے میںنہیں آتا۔ اس کو توہین عدالت کہنا بالکل نامناسب ہے۔ عدالت کی توہین اس وقت ہوئی جب سابق وزیراعظم نے سر عام یہ کہا کہ میں اگر عدالتی حکم مانوں تو آئین کی خلاف ورزی پر سزائے ،موت ہے اور اگر عدالت کا حکم ماننے سے انکار کردوں تو صرف چھ ماہ قید ہے۔ مطلب یہ کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت ملک کے چیف ایگزیکٹو کو آئین توڑنے کا حکم دے رہی تھی۔
مذکورہ بالا حقائق کے علاوہ میری ذاتی رائے میں ملک کے موجودہ سنگین ترین بحران میں اصغر خان کی درخواست کی سماعت کچھ عرصہ اور التواءمیں رکھی جا سکتی تھی۔ اندرونی اور بیرونی خطرات میں گھرے ہوئے اور معاشی بدحالی کا شکار پاکستان میں ہماری اور بہت ساری اہم ترین ترجیحات ہیں جس میں سب سے اول یہ ہے کہ ملک میں قومی یکجہتی کی فضا قائم کی جائے، دیانتدارانہ ماحول میں عام انتخابات ہوں اور ڈرون حملوں، بلوچستان میں دہشت گردی اور کراچی میں ہر روز درجنوں بے گناہ لوگوں کی ہلاکتوں کو روکنے کیلئے ساری سیاسی جماعتیں کوئی مشترکہ لائحہ عمل تیار کریں۔ حکمران سیاسی اتحاد کی دانستہ اور غیر دانستہ کوتاہیوں اور کمزوریوں کی بدولت بدعنوان عناصر ملک کے اندر چھائی ہوئی سیاہ کالی گھٹاﺅں سے برستے ہوئے موٹے برفانی اولوں سے اپنے سروں کو بچانے کیلئے اصغر خان کیس کے فیصلے کو چھتری کے طور پر استعمال کر رہے ہیںجو نامناسب ہے۔
اکثر لوگ جنرل اسلم بیگ اور جنرل اسد دورانی کو پاکستان فوج کے مایہ ناز، قابل اور دیانتدار افیسرز تصورکرتے ہےں۔ اُنکے خیال میں ان افیسرز کے علم میں جب ملک کی کاونٹر انٹیلی جنس ایجنسیوں نے ایٹمی پروگرام کے ممکنہ رول بیک اور ہندوستانی سراغ رساں ایجنسی را کے سیاستدانوں کی صفوں میں گھسنے کے شکوک ظاہر کئے اور اسی کی دہائی میں سکھوں سے متعلق اہم دستاویزات کے ہندوستانی ایجنٹوں کے ہاتھ لگنے کی باتیں ہونے لگیں تو اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے کچھ احکامات جاری کئے جس کو آج عدالت مختلف دلائل سننے کے بعد قانون کی خلاف ورزی سمجھتی ہے اس لئے مزید تفتیش کے احکامات صادر کر دیئے گئے ہیں جس کی تعمیل ہونی چاہےے۔قارئین اس مقدمے میں چند اہم باتیں کچھ یوں ہیں۔
(۱) سیاستدانوں میں صدر کی طرف سے رقوم تقسیم کرنے کا حکم کسی لحاظ سے بھی جائز نہیں تھا۔
(۲) اس کام کےلئے افواج پاکستان کے حاضر سروس آفیسرز کا استعمال ایک بہت بڑی غلطی تھی۔
(۳) اس کیس کو کھولنے کیلئے موجودہ وقت کا چناﺅ ناقابل فہم ہے۔ اسکی بڑی وجہ یہ نہیں کہ کچھ سیاستدانوں پر رقوم لینے کا الزام ہے بلکہ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس فیصلے کا منفی اثر افواج پاکستان کے اس ادارے پر بھی ضرور پڑےگا جو پہلے ہی بڑی طاقتوں اور ہمارے بڑے ہمسائے کے نشانے پر ہے۔جنرل مرزا اسلم بیگ اور جنرل اسد درانی کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں‘ دونوں باوقار اور خوددار آفیسر ہیں۔ جنرل درانی یہ نہیں کہتے کہ انہوں نے خود نواز شریف کو کوئی رقم دی‘ جنرل اسلم بیگ‘ جنرل نصیراللہ بابر کے حوالے سے دوٹوک الفاظ میں یہ کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف نے رقم وصول نہیں کی اور یہ پیپلز پارٹی کی سازش ہے۔ 
قارئین! مقدمے کا فیصلہ تو عدالتوں میں ہی ہو گا لیکن اکثر لوگوں کی یہ رائے ہے کہ بدعنوان حکمران سیاسی اتحاد کا شیرازہ اگر کوئی ایک سیاست دان بکھیر سکتا ہے تو وہ نواز شریف ہی ہیں اس لئے نواز شریف کی شخصیت کو مسخ کرنا ہر اس طاقت کا مشن ہے جو پاکستان کو قوموں کی برادری میں باوقار مقام دینے کی مخالف ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ملک کی سراغ رساں ایجنسیاں ملکی سرحدوں کے باہر اور اندر دونوں طرف دشمن کے جاسوسوں کی حرکات پر نظر رکھتی ہیں یہ جاسوس صرف سیاسی جماعتوں میں ہی نہیں بلکہ ملک کی مسلح افواج کی اندر بھی Penetrateکرسکتے ہیں۔ اس لئے ملکی سلامتی سے متصادم ہر بات کو ملک کے چیف ایگزیکٹو اور سپریم کمانڈر تک پہنچانا انکے فرائض میں شامل ہوتا ہے۔ یہ ماضی میں ہوتا رہا ہے،آج بھی ہو رہا ہے اور آئندہ بھی ہوتا رہےگا۔ ملک کے صدر، وزیراعظم، چیف آف آرمی سٹاف یا کسی بھی ادارے کے سربراہ کا اگر کوئی قریبی رشتہ دار بھی کسی ایسی کاروائی میں ملوث پایا جائے جو ملکی مفادات کے منافی ہو یا کرپشن اور بدعنوانی کے زمرے میں آتا ہو تو سراغ رساں ایجنسیاں یہ حقائق فوراً متعلقہ اعلیٰ شخصیات کے علم میں لاتی ہیں خواہ یہ اطلاعات بعد میں غلط ثابت بھی کیوں نہ ہو جائیں۔ جو لوگ سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں پر انٹیلی جنس ایجنسیوں کی نظر رکھنے پر معترض ہیں‘ وہ یہ نہ بھولیں کہ سیاسی جماعتیں پاکستان کی تخلیق کی مخالف تھیں اور آج بھی ہیں۔ ایک جماعت کے قائد نے حال ہی میں ہندوستان جا کر یہ کہا تھا کہ ہندوستان کی تقسیم ایک غلطی تھی۔ کچھ جماعتوں کے اندر خونخوار ملی ٹینٹ ہیں‘ کچھ BLA کو سپورٹ کرتی ہیں‘ کچھ نے الذوالفقار تنظیم بنائی تھی‘ جس نے پاکستان کا ہوائی جہاز ہائی جیک کیا تھا‘ کچھ لوگوں نے ہندوستانی ٹینکوں پر بیٹھ کر پاکستان آنے کی بات کی تھی اور کچھ نے خالصتان سے متعلق عام دستاویزات ہندوستان کے حوالے کی تھیں۔ لگتا یوں ہے کہ 1990ءمیں سیاستدانوں میں رقوم تقسیم کرنےوالی کاروائی کچھ ایسے ہی ماحول میں ہوئی۔ رینٹل پاور سیکنڈل میں ملوث ملک کے وزیر اعظم جب دوسروں کو Cheater اوربدعنوان کہتے ہیں تو یہ شعر ذہن میں آتاہے۔
خنجر پہ کوئی چھینٹ نہ دامن پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو

0 تبصرے:

اپنا تبصرہ تحریر کریں :-

ضروری بات : غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

Urdu Columns Pk
 
اُردو کالمز | #1 اردو کالمز بلاگ 2011 - 2014