ذی الحجہ کی آٹھویں شب کو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب میں دیکھا کہ بیٹے کو اللہ کی راہ میں ذبح کر رہے ہیں پھر نویں شب میں بھی ایسا ہی دیکھا.... حتیٰ کہ دسویں کی رات بھی ویسا ہی خواب میں دیکھا.... بہت فکرمند ہوئے۔ جب اس کی تعبیر سمجھ میں نہ آئی تو اپنے بیٹے کے پاس گئے اور انہیں سارا ماجرا کہہ سنایا۔ اس وقت حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی عمر نو برس کی تھی۔ حضرت اسمٰعیل نے والد ماجد کی بات سن کر کہا۔ اے والدِ محترم! اللہ نے حکم آپ کو دیا ہے۔ اس میں جلدی کیجئے انشاءاللہ مجھے آپ صابروں میں پائیں گے۔ دیر نہ کیجئے ایسا نہ ہو کہ ابلیس لعین وسوسہ ڈال کے ہمیں صحیح راستے سے بھٹکا دے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسی وقت فرمایا۔ اس لعین کو پتھر مارو۔ تب باپ اور بیٹے نے اس لعین پر پتھر پھینکے۔ اس سے پہلے شیطان لعین حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا کو بہکانے بھی گیا تھا۔ وہاں بھی اس نے پتھر کھائے اور اب یہ حاجیوں پر سنت ہے کہ حج کے دنوں میں‘ اس جگہ جا کر شیطان کو پتھر ماریں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام اس جگہ پر جا پہنچے اب جس کو منیٰ کہتے ہیں اور جہاں تمام حاجی اپنے اپنے جانوروں کی قربانی کرتے ہیں۔ وہاں پہنچ کر عظیم والد نے سعادت مند بیٹے سے پوچھا.... اب تمہاری کیا صلاح ہے....؟
فرمانبردار بیٹا بولا ....خدا کا شکر ہے آپ نے مجھے اللہ کی راہ میں قربان ہوتے ہوئے خواب میں دیکھ لیا۔ پس اب جس طرح بھی ممکن ہو۔ امر الٰہی بجا لایئے۔ دونوں حکم خداوندی بجا لانے کیلئے تیار ہو گئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے لختِ جگر کو زمین پر ماتھے کے بل پچھاڑا۔ تاکہ بیٹے کا منہ سامنے نظر نہ آئے اور محبت پدری جوش میں نہ آئے۔ بیٹے نے بھی بصد ادب و احترام تین گزارشات کیں۔ پہلی یہ کہ رسی سے میرے ہاتھ پاوؑں باندھ دیجئے ایسا نہ ہو.... کہ میں بے جا مداخلت کرتا نظر آوؑں۔ دوسری یہ کہ میرا منہ دوسری طرف کر دیجئے تاکہ میں آپ کی طرف دیکھ کر آپ کے ارادے کو متزلزل نہ کر دوں اور تیسری یہ کہ جب آپ گھر تشریف لے جائیں تو محترمہ والدہ صاحبہ کو میری طرف سے سلام عرض کر دیں اور میرے کپڑے ان کو دیں۔
یہ باتیں سن کر جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے رسی سے اپنے فرزند کے ہاتھ پاوؑں باندھ کر آستین سے چھری نکالی۔ اور ان کا منہ بھی دوسری طرف پھیر دیا۔ تو فرزند ارجمند نے یکایک کہا۔
ابا جان میرے ہاتھ پاوؑں کھول دیجئے۔ رسی تو ان کو باندھی جاتی ہے جو بھاگنے والے ہوتے ہیں۔ میں بھاگنے والا نہیں ہوں.... میں اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے والا ہوں۔
پھر چشم فلک نے دیکھا کہ باپ کا ہاتھ تو نہیں کانپا مگر چھری کند ہو گئی....
اسی جگہ اللہ کے حکم سے ایک دنبہ لایا گیا.... جسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قربان کر دیا۔
اور پھر جملہ مسلمانوں کیلئے یہ سنت ٹھہری کہ وہ اس دن کو روزِ عید کی طرح مناتے ہیں۔ اپنی حلال کی کمائی میں سے اپنی حیثیت کے مطابق قربانی کرتے ہیں۔ اور اللہ کی رضا کے مطابق مناسک حج ادا کرتے ہیں۔ ہر سال مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں.... تیس چالیس لاکھ حجاج کرام دنیا کے کونے کونے سے وہاں کھنچے چلے آتے ہیں۔ ان سب کا آپس میں کوئی رشتہ نہیں ہوتا۔ کوئی مفاد وابستہ نہیں ہوتا.... کوئی زور زبر زبردستی بھی نہیں ہوتی۔ ایک ایمان‘ ایک یقین اور ایک اعتقاد ان کو وہاں لے جاتا ہے.... سب لوگ مناسک حج ادا کر کے باقاعدہ قربانی کرتے ہیں.... ایک سال یا ایک دن کی بات نہیں.... تقریباً پندرہ سو سالوں سے سنتِ ابراہیمی ادا کی جا رہی ہے.... اور تاقیامت کی جاتی رہے گی۔ ہر سال ہم یہ مناظر حج ٹی وی پر بھی دیکھتے ہیں۔ دل کے اندر ایمان ٹھاٹھیں مارنے لگتا ہے.... عید آتی ہے گزر جاتی ہے....
مگر کیا ہم نے گھڑی بھر کو رک کر سوچا.... ان سب صدیوں کے بیچ و بیچ کیا ہم آداب فرزندی کی بھی تکمیل کر رہے ہیں یا نہیں.... اصول پدری سے بھی آگہی ہے کہ نہیں....
کرنے کو بہت کام تھے‘ کہنے کو مسلمان تھے.... مگر اصل ایمان اوڑھتے ہوئے احساس کم تری کیوں....؟
آج دنیا میں مسلمانوں کو بدترین ثابت کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ تو کیوں....؟
اسلام کے دامن پر دہشت گردی اور انتہا پسندی کا دھبہ لگایا جا رہا ہے۔ تو کیوں....؟
کیونکہ نئی نسلوں کی تربیت میں کہیں کوتاہی ہو گئی ہے۔
مکتب کی کرامت درسگاہوں سے رخصت ہوئی۔ اور فیضان نظر کے متلاشی گرین کارڈ کے چکروں میں جا پھنسے....
آج ہر کوئی اپنی ذمہ داری دوسرے پر ڈال رہا ہے....
دنیا ہے کہ پل پل بدل رہی ہے۔ اور مسلمان ہیں کہ ابھی تک مسالک کے جھگڑوں میں پڑے ہوئے ہیں۔
کوئی رک کر اتنا نہیں سوچتا کہ آدابِ فرزند ی کس کی ذمہ داری ہے؟
آج ہماری نسلوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کی ضرورت ہے۔ تربیت کیلئے پہلے والدین پھر اساتذہ ہوتے ہیں۔ لیکن زیادہ تر والدین اپنی اولاد کو دنیا کی سب آسائشیں دینے میں کوشاں رہتے ہیں۔ انہیں تربیت دینے کی فرصت ہی نہیں ملتی۔ زیادہ تر اساتذہ شاگردوں کو ڈگری یافتہ بنانے کی فکر میں رہتے ہیں۔ انہیں تزکیہ نفس کی طرف لانے کا دھیان ہی نہیں آتا اور ڈگری یافتہ نسلیں بہترین ملازمت کے حصول کے دروازے تلاش کرتی رہتی ہیں....
علامہ اقبال نے کہا تھا
نہ ہو طغیانِ مشتاقی تو میں رہتا نہیں باقی
کہ میری زندگی کیا ہے یہی طغیانِ مشتاقی!
وہاں خانہ کعبہ کے اندر .... خوشاوہ لوگ جو اپنے رب کو پکار رہے ہیں اور چلا چلا کر کہہ رہے ہیں۔
لبیک اللھم لبیک .... لبیک .... لبیک ....
وہ تمہیں حاضر ہونے کی توفیق خود عطا کرتا ہے۔ خود بلا بھیجتا ہے.... اور خود تمہارا والہانہ پن دیکھتا ہے....
منیٰ میں‘ مزدلفہ میں‘ عرفات میں‘ رمی اور جمارات میں....
تم کو بس حاضری لگوانے کی فکر.... نہ حضوری کا شوق نہ مخموری کی طلب.... وہاں بھی لڑتے ہو جھگڑتے ہو‘ دست و گریباں ہوتے ہو....
کیا کرنے جاتے ہو.... کیا کر کے آتے ہو.... کدھر رخ ہونا چاہئے۔ کس طرف منہ کر لیتے ہو
یہ زائرانِ حریم مغرب ہزار راہبر بنیں ہمارے
ہمیں بھلا ان سے واسطہ کیا جو تجھ سے ناآشنا رہے ہیں
غضب ہیں یہ مرشدانِ خودبیں خدا تیری قوم کو بچائے
بگاڑ کر تیرے مسلموں کو یہ اپنی عزت بنا رہے ہیں؟
0 تبصرے:
اپنا تبصرہ تحریر کریں :-
ضروری بات : غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے ۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔