میں پاکستان کو خطۂ عشق محمد سمجھتا ہوں۔ کل کے کالم میں سہواً مجھ سے ایک لفظ سرزد ہو گیا جو عشق رسول کے تقاضے کے شایانِ شان نہیں‘ اس سہو پر میں اپنے ربِ کریم‘ اس کے رسول اور غلامان رسول سے دلی معذرت چاہتا ہوں۔ پاکستان کی تاریخ میں ایک منفرد معرکہ آرائی ہوئی ہے کہ 70 ہزار لوگوں نے قومی ترانہ مل کر گایا۔ وہ لوگ جو نیشنل ہاکی سٹیڈیم میں حاضر تھے اور جو گھروں میں تھے وہ بھی حاضر تھے۔ سارا پاکستان قومی ترانہ ترنم سے پڑھ رہا تھا۔ ترانے اور ترنم کا کچھ نہ کچھ ساتھ تو ہے۔ چند بدبختوں کو چھوڑ کر سب لوگ پاکستان کے ساتھ جان و دل سے محبت کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے کہ جو دوستوں دشمنوں سب کی آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی ہے۔ اس ملک کو کوئی بھی کسی سازش کا شکار نہیں کر سکتا۔ 18 کروڑ دلوں 32 کروڑ آنکھوں اور کروڑہا جذبوں والا یہ ملک ہمیشہ قائم رہے گا۔ اس حوالے سے برادرم مصدق نے ایک خوبصورت کالم لکھا ہے۔
70 ہزار سے زیادہ لوگ ایک تھے۔ اس میں ہر جماعت ہر مسلک کے لوگ تھے۔ خواتین و حضرات تھے۔ وہ جس کو بھی ووٹ دیں جس کے بھی ساتھ ہوں مگر وہ پاکستانی ہیں۔ اول و آخر پاکستانی.... یہ تقریب جو بھی کرواتا وہ مجھے اچھا لگتا۔ اس کا تعلق جس بھی جماعت کے ساتھ ہوتا مجھے شہباز شریف کے ساتھ اختلاف بھی ہے مگر اس کا یہ اعتراف کچھ کم نہیں ہے کہ انہوں نے بھی پورے جذبے اور ولولے سے ترانہ پڑھا۔ جو بھی دھڑلے سے ترانہ پڑھتا ہے وہ جس بھی دھڑے سے تعلق رکھتا ہو‘ وہ میرا اپنا ہے۔ میں شہباز شریف کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ یہاں بھی وہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور سب کے ساتھ مل کے ترانہ پڑھا۔ فلم ارمان کا گانا پورے ذوق و شوق کے ساتھ پڑھا۔ لگتا ہے یہ فلم اور یہ گانا انہیں پسند ہے۔ فلمسٹار زیبا اپنے گھر میں بہت خوش ہوئی ہو گی۔ یہ گانا وحید مراد اور اس پر فلمایا گیا تھا۔ اکیلے نہ جانا ہمیں چھوڑ کر تم۔ تمہارے بنا ہم بھلا کیا جیئیں گے۔ سب خواتین و حضرات یہ گانا بھی شہباز شریف کے ساتھ ساتھ الاپ رہے تھے۔ ایک مستی پورے ماحول پر چھائی ہوئی تھی۔ قومی ترانے کیلئے سرمستی بکھری ہوئی تھی۔ تحریک انصاف والوں نے مقبول گلوکار ابرار الحق کے علاوہ بھی کچھ لوگوں کو ساتھ ملایا ہوا ہے۔ ابرار تو اب پورا لیڈر ہے۔ مگر مسلم لیگ ن اس معاملے میں خودکفیل ہے۔ یہاں اکیلے شہباز شریف بہت ہیں لوگ انہیں انجوائے بھی کرتے ہیں۔
ایک بات کا دکھ میرے دل میں ہے کہ پی ٹی وی نے براہ راست ان لازوال منظروں کو ٹیلی کاسٹ نہ کیا تھا۔ جبکہ باقی سب ٹی وی چینلز نے اس کیلئے لائیو کوریج کی۔ وقت نیوز نے بار بار قومی ترانے کو دکھایا۔ یہ چینل اب غیر سرکاری قومی نشریاتی ادارہ بن چکا ہے۔ پی ٹی وی پر لندن سے الطاف حسین کا خطاب براہ راست دکھایا جاتا ہے۔ مجھے ان کی بہت سی باتیں اچھی لگتی ہیں۔ ایسا ڈسپلن اور کسی جماعت میں نہیں۔ اپنے قائد کیلئے عوامی محبت و اطاعت کیلئے جذبات کہیں اور نہیں۔ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ الطاف حسین پاکستان کیلئے محبت کا اظہار کرتے ہیں جبکہ اس میں ان کی اپنی سیاست کا دخل ضرور ہوتا ہے۔ مگر پاکستان سے کسی طرح بھی محبت انمول ہے۔ میری الطاف حسین سے گزارش ہے کہ وہ قومی ترانے کی تقریب کو براہ راست نہ دکھانے پر بھرپور احتجاج کریں۔ صدر زرداری کی سیاسی تقریر دکھائی جاتی ہے۔ وہ پیپلز پارٹی کے لیڈر ہیں مگر ہمارے صدر بھی ہیں۔ اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ وہ خود اس غفلت کا نوٹس لیں۔
رحمان ملک جو ہر معاملے میں بولتے ہیں۔ اب بھی بولیں میں قمر الزمان کائرہ کیلئے دل میں نرم گوشہ رکھتا ہوں۔ وہ مہذب اور محترم سیاستدان ہیں۔ وہ مکمل انکوائری کرائیں کہ یہ غفلت کیوں ہوئی۔ ایم ڈی پی ٹی وی سے بھی گزارش ہے کہ وہ تحقیقات کروائیں کہ اس کوتاہی کے پیچھے کیا عوامل کارفرما ہیں۔ اس کے بعد خبروں میں قومی ترانے کی اس بے بہا پرفارمنس کی جھلک دکھائی گئی مگر بات نہیں بنی۔
گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ کی ٹیم یہاں موجود تھی اور سارے واقعے کو تفصیل کے ساتھ دیکھ رہی تھی۔ ان کے اپنے بھی چینلز ہیں۔ ان کے پروگرام دنیا کے معروف ترین چینل پر دکھائے جاتے ہیں۔ اس طرح یہ روح پرور تقریب پوری دنیا میں عالمی سطح پر دیکھی گئی۔ دنیا کے جس جس کونے میں پاکستانی رہتے ہیں۔ سب لوگوں نے ان جذبات کے ساتھ اپنے جذبات ملا دیئے۔ پوری دنیا میں پاکستانی خواتین و حضرات بچے بوڑھے کھڑے ہو گئے اور انہوں نے قومی ترانہ پڑھا۔ مجھے میری ایک عزیز ڈاکٹر طیبہ اعجاز نے بتایا کہ میں اشکبار ہو گئی۔ میری بیٹیاں ڈاکٹر سعدیہ اور ڈاکٹر نایاب بھی باادب کھڑی تھیں اور ترانہ پڑھ رہی تھیں۔ اشکباریوں کی سرشاریوں اور بے قراریوں میں سارے پاکستانی ڈوب ڈوب کر ابھرتے رہے۔
سب لوگ شہباز شریف کے ممنون ہیں اور اس میں کسی سیاسی وابستگی کی کوئی لہر موجود نہیں۔ اس موقعے پر شہباز شریف علی بابا چالیس چوروں کے اشارے کے ساتھ کوئی بات نہ کرتے تو زیادہ اچھا ہوتا۔ انہوں نے اپنی تقریر میں پاکستان کی خالص محبت کی خوشبو تقسیم کی۔ کسی نے شہباز شریف کو اس موقعے پر مسلم لیگ ن کے لیڈر کے طور پر نہ دیکھا۔ کاش وہ مسلم لیگ کے لیڈر ہوتے۔
یہ محترم مجید نظامی کی آواز ہے۔ اس آواز میں پاکستان دھڑکتا ہے۔ صرف ایک فورم ہے اور وہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ ہے جہاں ہر تقریب تلاوتِ قرآن مجید اور ترانہ¿ پاکستان کے ساتھ آغاز ہوتی ہے۔ یہاں آنے والے ہر مرد و زن اور بالخصوص بچوں کو قومی ترانہ آتا ہے اور وہ ہر روز جس جذبے سے قومی ترانہ پڑھتے ہیں لگتا ہے جیسے یہ ترانہ انہوں نے خود لکھا ہے۔ ہم حفیظ جالندھری کے شکرگزار ہیں۔ حفیظ جالندھری نے بتایا تھا کہ میں قومی ترانے کے لئے کمرے میں بند ہو گیا، یہ ترانہ مجھ سے رسول کریم نے لکھوایا ہے۔ یہ ترانہ ہماری امنگوں، آرزوؤں اور عشق رسول کی کیفیتوں کا آئینہ ہے۔ اب یہ ترانہ ہم سب کی ملکیت ہے۔ مجید نظامی اور ڈاکٹر رفیق کی قیادت اور رفاقت ریاض کی رفاقت میں شاہد رشید نے نظریہ پاکستان کی استقامت اور پاکستان کے ساتھ محبت ایمان کا حصہ بنا دیا ہے۔
شہباز شریف کی یہ بات بھی اچھی لگی کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں نے مل کر ترانہ گانے کا جو ریکارڈ بنایا ہے یہ پاکستان کا ریکارڈ ہے۔ یہ پنجابیوں نے نہیں پاکستانیوں نے ریکارڈ بنایا ہے۔ مجھے اس یادگار تقریب کے لئے برادرم رائے نذر حیات نے دعوت دی تھی۔ یہاں محی الدین وانی، اطہر علی بہت سرگرم تھے۔ ان کے ساتھ ڈائریکٹر سپورٹس عثمان بھی تھے۔ میں لوگوں کے درمیان تھا۔ عام لوگوں میں مجھے بڑا مزا آیا۔ میں نے کسی کو اپنی موجودگی کا پتہ نہیں چلنے دیا۔ بھارت میں 2007ءمیں 15418 لوگوں نے مل کر اپنا ترانہ گایا تھا اور تب یہ ایک ریکارڈ تھا۔ پاکستان میں 70 ہزار سے زیادہ لوگوں نے قومی ترانہ گایا جس میں 15000 سے زیادہ کھلاڑی تھے۔ ان میں خواتین کھلاڑی بھی خاصی تعداد میں تھیں۔ خواتین کی کل تعداد 20 ہزار سے زیادہ تھی۔ گینز بُک آف ورلڈ ریکارڈ کے مطابق 42 ہزار آدمی قومی ترانہ ایک ردھم میں پڑھ رہے تھے۔ پڑھ تو 70 ہزار سے زیادہ رہے تھے مگر لفظوں کی ادائیگی میں وہ ہم آہنگ نہ تھے۔ بہرحال ریکارڈ تو بن گیا اور اس کا اندراج گینز بُک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج ہو گیا۔ پاکستان زندہ باد!
0 تبصرے:
اپنا تبصرہ تحریر کریں :-
ضروری بات : غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے ۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔