صدر زرداری کی بہن میری بھی بہن ہے۔ پاکستان کی غیر اعلانیہ نائب صدر فریال تالپور نے کہا ہے کہ ہم ہر شہر میں بلاول ہاؤس بنائیں گے۔ فریال بی بی یہ بتائے کہ وہاں جا کے کون رہے گا اور کیا کرے گا۔ یہ سب کچھ بیوروکریسی اپنے قبضے میں کر لے گی اور اس کا نام بھی تبدیل کر دے گی۔ پہلے انگریزوں نے ہر شہر میں ریسٹ ہاؤس بنائے تھے۔ وہ جس کام کیلئے یہاں آتے ہیں۔ لوگ جانتے ہیں بہت دور آباد بستیوں میں ریسٹ ہاؤس موجود ہیں۔ ایک بار اپنے دانشور دوست فرخ سہیل گوئندی کے ساتھ کلرکہار اور منارہ سے پرے جنگلوں میں گیا تھا۔ ویرانی اور حیرانی ہر طرف بکھری ہوئی تھی۔ تنہائیوں اور خاموشیوں میں گھرے ہوئے ریسٹ ہاؤس میں داخل ہو کے ایسے لگا کہ کسی نئی دنیا میں آ گیا ہوں۔ بتایا گیا کہ یہاں سے کچھ دور ڈاکو پناہ لیتے تھے۔ ریسٹ ہاؤس میں افسران اور حکمران کس کی پناہ میں ہوتے ہیں؟ عیاشی بدمعاشی اور فحاشی کی پناہ گاہ کو ریسٹ ہاؤس کہتے تھے۔
ہر جگہ بلاول ہاؤس بنانے میں دیر لگے گی۔ سارے پاکستان کو بلاول ہاؤس ڈیکلیئر کر دیا جائے۔ جیالستان بھی ٹھیک ہے مگر اس میں سے عوامی تاثر کی بو آتی ہے۔ وہ صرف پیپلز پارٹی کیلئے کافی ہے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ صرف پیپلز پارٹی اب تک عوامی پارٹی ہے۔ جیالوں کو کچھ بھی نہ دیا جائے مگر وہ ووٹ پیپلز پارٹی یعنی بھٹو کے رشتہ دار کو دیں گے۔ صدر زرداری بڑے جینئس سیاستدان ہیں۔ کچھ حاسدین انہیں ایول جینئس کہتے ہیں۔ انہوں نے بی بی کے مرتے ہی بلاول زرداری کا نام بلاول بھٹو زرداری رکھ دیا۔ جسے جیالوں نے اور جیالے میڈیا نے قبول کر لیا۔
ایک جیالی ایم پی اے کا خیال ہے کہ پاکستان کا نام بلاول ہاؤس رکھ لیا جائے۔ یہ تجویز اس سے آگے کی ہے کہ اب بلاول ہاؤس کا نام بھی بلاول بھٹو زرداری ہاؤس رکھ دیا جائے اور جیالے پاکستان کیلئے بھی یہی نام مناسب ہے۔
جن دنوں زرداری صاحب مختلف جیلوں میں مختلف قسم کے قیدی تھے۔ پھر بھی قید قید ہوتی ہے۔ میں نے تب لکھا تھا کہ ان کیلئے فیصلہ کرو۔ ورنہ انہیں جیل سے نکالو۔ این آر او بھی عدالتی نظام کی ٹیکنیکل کاہلی کی وجہ سے آیا ہے۔ تب مجید نظامی نے بھی انہیں ”مرد حر“ کا خطاب دیا تھا جو پیپلز پارٹی والوں کیلئے ایک نعمت کی طرح تھا۔ کاش صدر زرداری حضرت حُر کی صداقت نسبت اور پھر شہادت سے پوری طرح آگاہ ہوتے۔ وہ صدر کے طور پر ”حکومتی حریت پسندی“ کی کوئی مثال بنتے۔ وہ سیاسی کامیابیوں کیلئے جیالوں کے آئیڈیل ہیں۔ لوگ اور سیاستدان حیران پریشان ہیں۔ وہ تاریخی اقدام کرتے تاریخ ساز بنتے مگر انہوں نے ایوان صدر کو شائد فریال تالپور کے مشورے پر بلاول ہاؤس بنا دیا ہے۔
مجھے یاد ہے کوٹ لکھپت جیل میں ایک ملاقات کے دوران زرداری صاحب نے کہا تھا کہ لوگ مجھ سے بہت توقعات رکھنے لگے ہیں۔ جیسے انہیں تب بھی معلوم تھا کہ وہ ایسے منصب پر پہنچیں گے کہ لوگ توقعات رکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ صدر زرداری کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ لوگوں کی توقعات ٹوٹ پھوٹ گئی ہیں۔ وہ مایوسی کے اندھیرے کی دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں۔ اندھیرا اندھیرنگری اور چوپٹ راج۔ یہی ثابت کرنے کیلئے صدر زرداری راجہ پرویز اشرف کو لائے ہیں۔ وہ قربانی سے بچ گئے ہیں۔ نااہل اور کرپٹ وزیراعظم گیلانی خواہ مخواہ مارے گئے۔ لوگ کہتے ہیں وہ قربانی کی بکری بنے۔ میں کہتا ہوں کہ ایسے آدمی کی قربانی جائز نہیں۔ جیسے بیمار بکری کی قربانی جائز نہیں ہوتی۔ اس سے پہلے وہ اڈیالہ جیل میں تھے۔ دوبارہ وہاں جانے کے امکانات ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ وہ اور ان کا خاندان کیا کرتا رہا ہے۔ اس سے ساری دنیا واقف ہے۔ آصف ہاشمی زیادہ باخبر ہے کہ وہ رازدار ہے اور بزنس پارٹنر بھی ہے۔ بزنس سے یہاں کیا مراد ہے۔ آپ کو پتہ ہے۔ میں ان کے ساتھ بھی جیل میں ملا تھا۔ مگر قید میں زرداری صاحب کا رویہ اس سے بہت بہتر تھا اور مختلف تھا۔ یہ فیصلہ ہو گیا تھا کہ اب کے قیدیوں کی حکومت آئے گی۔ شہبازشریف بھی قیدی تھے۔ اب حکومتیں صرف دو ہیں۔ زرداری حکومت اور پنجاب حکومت۔ صدر زرداری کو قید اتنی پسند ہے کہ وہ آج کل ایوان صدر کے قیدی ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ وہاں بھی ڈاکٹر قیوم سومرو ان کے آس پاس ہوتے ہیں۔ تب سومرو صاحب میرے گھر میں کئی بار آئے تھے۔
سنا ہے فریال تالپور اپنے بھائی سے جیل میں ملنے کے بعد مجھے مل کر شکریہ ادا کرنا چاہتی تھیں مگر شاید سومرو صاحب نے انہیں منع کر دیا کہ وہ تو ہر مظلوم کی آواز پر کالم لکھتا رہتا ہے۔ اب گورنر ہاؤس پنجاب میں فریال تالپور کی موجودگی میں کچھ مخصوص جیالوں اور سردار لطیف کھوسہ کو ان کے حضور جیالوں کی طرح دیکھا۔ وہ تھوڑی دیر کیلئے دوستوں کے پاس باہر آئے جیسے فریال تالپور نے انہیں باہر نکال دیا ہو۔ گورنر ہاؤس لاہور کا نام بلاول ہاؤس رکھا جا سکتا ہے۔ یہ اعلان کھوسہ صاحب کریں گے۔ شکر ہے کہ وہ میرا شکریہ ادا کرنے میرے گھر نہ آئی تھیں۔ ان کی خدمت میں عرض ہے کہ اب بھی زرداری صاحب جب جیل میں آئیں گے اور وہ ضرور آئیں گے کہ یہی راستہ اقتدار کی طرف جاتا ہے۔ میں ان کے جائز حق کیلئے پھر بھی ضرور لکھوں گا اور خودبخود لکھوں گا۔ پہلے بھی مجھے کسی نے کہا نہ تھا کہ قیدی زرداری صاحب کیلئے لکھو۔ سومرو صاحب بھی پہلے کالم کے بعد آئے۔ ڈاکٹر بابر اعوان سے دوستی بھی پہلے کالم کے بعد ہوئی تھی۔
میں معذرت کرتا ہوں کہ میں نے محترمہ بہن فریال تالپور کو بے دھیانے میں فریال گوہر لکھ دیا تھا۔ وہ حنا ربانی کھر کی طرح جنرل مشرف کی بڑی چہیتی تھی۔ مگر میں مطمئن ہو گیا جب فریال گوہر کو بینظیر بھٹو شہید کیلئے ایک پی ٹی وی پروگرام کمپیئرنگ کرتے دیکھا۔ ایک بار ائرپورٹ چیکنگ کے دوران اس نے کہا تم نہیں جانتے کہ ایوان صدر میں میرا آنا جانا ہے۔ فریال تالپور کے بارے میں تو سارا پاکستان جانتا ہے کہ وہ صدر زرداری کی ہمراز بہن ہیں۔ وہ مشاورت سب سے کرتے ہیں مگر مانتے صرف اپنی ہیں یا کبھی کبھی اپنی بہن فریال تالپور کی مانتے ہیں۔ اسی لئے انہوں نے فریال بی بی کو مشیر نہیں بنایا۔ فیصل رضا عابدی قیوم سومرم اور فواد چودھری کو مشیر بنایا ہے۔ اگر فریال بی بی کو مشیر کا منصب دے دیا گیا ہوتا تو فریال بی بی کا جوہر قابل بھی گم ہو گیا ہوتا۔ وہ پارٹی کے معاملات میں بہت مفاہمت اور مصلحت سے فیصلے کرتی ہیں۔ ناکام بھٹو فیملی کے ایک فرد امیر بخش بھٹو کہتے ہیں کہ بینظیر بھٹو کے زمانے میں فریال تالپور منتیں کرتی تھیں کہ مجھے بلاول ہاؤس جانے دیا جائے۔ یہ بھی تو کریڈٹ ہے کہ اب وہ بلاول ہاؤس کی مالک ہیں۔ امیر بخش ان کی اجازت کے بغیر بلاول ہاؤس جا کے دکھائے۔ کئی بھٹوز کو بینظیر بھٹو بھی بلاول ہاؤس نہیں آنے دیتی تھیں۔
0 تبصرے:
اپنا تبصرہ تحریر کریں :-
ضروری بات : غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے ۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔