Share
"اُردو کالمز" بلاگ پر خوش آمدید۔ بلاگ کو زیادہ سہولت کیساتھ ڈائنامک ویو (Dynamic View) میں دیکھنے اور پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں:

Sunday, October 14, 2012

ملالہ کو ہوش میں آنے دو ....؟



وہ شخص جو صادق اور امین نہیں ہے۔ رحمان ملک کے جھوٹا ہونے کا فیصلہ سپریم کورٹ نے دے دیا۔ ہمارے ملک میں کوئی صادق اور امین ہے بھی؟ دکھی دل سے کہہ رہا ہوں کہ کوئی نہیں۔ ایک بھی نہیں۔ سپریم کورٹ نے پرویز اشرف کو بھی بددیانت اور نالائق قرار دیا۔ اسے وزیراعظم بنا دیا گیا۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ بھی صادق اور امین نہیں۔ صادق اور امین کا لفظ اسلئے بھی پسند نہیں آیا کہ یہ ہمارے آقا و مولا رحمت عالم رسول کریم کا لقب تھا۔ جو انہیں اپنے لوگوں کی طرف سے دیا گیا۔ جب آپ نے فرمایا کہ لوگو! میں تمہیں کہوں کہ اس پہاڑی کی پرلی طرف ایک لشکر تم پر حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم مان لو گے۔ انہوں نے یک زبان ہو کر کہا کہ آپ صادق اور امین ہیں۔ ہم کیوں نہیں مانیں گے۔

خدا کی قسم یہ آواز کہیں سے آ رہی ہے کہ پاک افغان سرحد کی پہاڑیوں کے پیچھے ایک لشکر ہم پر حملہ کرنے والا ہے تو ہم کیوں اس پر یقین نہیں کرتے۔ افغانستان سے ذلیل ہو کے امریکہ نکلے گا تو پاکستان میں حکمرانی کرنے آ جائے گا۔ یہ حکمران صدر کرزئی سے بھی کمزور اور خوفزدہ ہیں۔ امریکہ وزیرستان کو دہشت گردی سے پاک نہیں کرنا چاہتا۔ وہ وزیرستان پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ سلالہ چیک پوسٹ پر انہوں نے حملہ کر کے خود بتا دیا ہے کہ ہم تمہیں نہیں چھوڑیں گے۔ ملالہ یوسف زئی پر بھی حملہ انہوں نے کروایا ہے۔ یہ بات جنرل اسلم بیگ نے بھی کہی ہے۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ لڑ لڑ کے کمزور ہو جائیں گے۔ امریکہ ہماری آنکھوں کے سامنے جو چاہے گا کرتا رہے گا‘ اب بھی کر رہا ہے۔

وہ جو صادق اور امین نہیں ہیں۔ انہوں نے پچھلے ساڑھے چار برسوں میں اتنے جھوٹ بولے ہیں کہ پوری کتاب بن سکتی ہے۔ دہشت گردی کے ہر واقعے پر کہا گیا کہ یہ طالبان کی کارروائی ہے تاکہ حکومت کو کوئی کارروائی نہ کرنا پڑے اور انہوں نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ اور پھر یہ کہا کہ ہم دہشت گردوں کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ ہم انہیں نہیں چھوڑیں گے۔ مگر دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں نے ہمیں کہیں کا نہ چھوڑا۔ سرحدی وزیر میاں افتخار بھی چار سال سے یہ کہہ رہا ہے۔ اس کا بیٹا بھی شہید ہوا۔ تب تو اس نے دو دن بھی اس کا غم نہیں کیا تھا۔ ملالہ کیلئے دکھ ہے مگر یہ دکھ عالمی سطح پر منانے والوں کے مقاصد کیا ہیں۔ پاکستانی حکمرانوں کے بھی یہی مقاصد ہیں۔

رحمان ملک کہہ رہے ہیں کہ سوات میں ملالہ پر حملہ آوروں کے تمام راستے شمالی وزیرستان کی طرف جاتے ہیں۔ ایک وزیرستان اسلام آباد میں بھی ہے۔ سرکاری وزیرستان جہاں سب وزیر شذیر اور رحمان ملک اور وزیراعظم رہتے ہیں۔ ایوان صدر بھی ساتھ ہے۔ پارلیمنٹ بھی ہے جہاں عوامی نمائندے رہتے ہیں۔ نجانے وہ کس کے نمائندے ہیں۔ پارلیمنٹ کی ڈرون کے خلاف قرار داد اس کے منہ پر دے ماری گئی۔ اب وہاں ہمارے ملٹری ایکشن میں ڈرون کی مدد ہمیں حاصل ہو گی؟ رحمان ملک کو یاد ہے کہ سوات کے طالبان فضل اللہ کے سسر جماعت اسلامی کے سابق ورکر صوفی محمد سے مذاکرات کئے گئے تھے۔ مذاکرات کس نے ناکام کرائے۔ اب صوفی محمد کس کا بندہ ہے۔ اسے اب تک سرحدی حکومت نے بہت جابرانہ طریقے سے محفوظ رکھا ہوا ہے۔ سوات پر ملٹری ایکشن کیلئے کیا گیا پروپیگنڈا کیا گیا۔ طالبان اسلام آباد سے چند کلومیٹر دور رہ گئے ہیں۔ پھر جنرل کیانی نے کامیاب ایکشن کیا جس نے بھارت اور امریکہ کو پریشان کر دیا اور دنیا کو حیران کر دیا۔ نقل مکانی کرنے والے ہزاروں سواتی واپس گھروں میں آ گئے مگر فضل اللہ کو بھاگنے کا کس نے موقع دیا۔ صدر کرزئی اور نیٹو فورسز اس کے محافظ اور سرپرست ہیں۔ تو جناب ملٹری ایکشن کرنا ہے تو سوات میں کرو۔ ایک ایکشن کے بعد یہ حالت ہے تو کتنے ایکشن کرو گے۔ یہ ملٹری کو بھی بدنام کرنے کی واردات ہے۔ امریکہ پاکستانی فوج کو شمالی وزیرستان میں جھونکنا چاہتا ہے۔ قبائلی پاکستان کے خلاف نہیں۔ نائن الیون سے پہلے تو یہ جنگ نہیں تھی۔ امریکی جنگ کو اپنی جنگ کہنے والے خدا کا خوف کریں۔ وزیراعظم پرویز اشرف کو جرا¿ت نہیں ہوئی کہ پشاور جا کے ملالہ کی عیادت کرے۔ دو تین دن کے بعد موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ملالہ کو راولپنڈی لایا گیا تاکہ حکمران اس کی عیادت کر سکیں۔ صدر زرداری کیلئے اسے ایوان صدر میں لایا جائے گا۔ پشاور میں جنرل کیانی گئے تھے۔ اچھی بات ہے مگر اپنے زخمیوں کا بھی ان پر حق ہے۔

سوات میں بھی آپریشن کے دوران آتے جاتے رہے۔ کسی سیاسی حکمران کو ڈر کے مارے یہ توفیق نہ ہوئی تھی۔ اب شمالی وزیرستان بھی کیانی کو جانے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ابھی تک قوم جنرل کیانی کیلئے دل میں عزت محبت رکھتی ہے۔ میں ان کی منت کرتا ہوں کہ شمالی وزیرستان میں اپنے لوگوں سے لڑنے نہ جاؤ۔ وہاں د ہشت گرد بھی ہیں مگر عام محب وطن لوگ بچے عورتیں بھی ماری جائیں گی۔ ممکن ہے وہاں کسی معصوم لڑکی کا نام ملالہ ہو تو کیا خدانخواستہ اسے بھی پاکستانی فوج قتل کرے گی۔ ڈرون حملوں میں مرنے والوں میں چند دہشت گرد بھی شاید ہوں مگر خاک و خون میں تڑپنے والے بچے عورتیں بوڑھے اور بے گناہ لوگ ہوتے ہیں۔ ابھی ملالہ کے وجود میں زخم بول رہے ہیں اور دو تین ڈرون حملے ہو چکے ہیں۔

میں ملالہ کیلئے روتا رہا ہوں مگر میرے آنسوؤں کو شرمندگی نہ بناؤ۔ اسے نئی زندگی بناؤ؟ یہ تو اس بہادر بچی پر حملے کو اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کرنے والی بات ہے۔ صدر اوباما نے ریمنڈ ڈیوس اپنے جاسوس ڈاکٹر شکیل اور اب ملالہ کیلئے ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔ بین الاقوامی طور پر میڈیا کو اور اداروں کو اسی کام پر لگا دیا گیا ہے۔ سارے پاکستان کو تم نے زخم زخم کر دیا ہے۔ ملالہ کو بہانہ بنا کے تم جتنا شور مچا رہے ہو۔ یہ ملالہ بھی نہ چاہے گی۔ اسے ہوش میں آنے دو۔ پھر تمہارے ہوش ٹھکانے لگ جائیں گے۔ کئی بچیاں امریکہ نے خود یہاں قتل کی ہیں تو صرف ملالہ کیلئے امریکی گلوکارہ اپنے ننگے وجود پر اس کا نام لکھ کے ڈانس کیوں کرتی ہے۔

پرویز اشرف کہتے ہیں کہ ہم طالبان کا ایجنڈا قبول نہیں کریں گے۔ امریکہ کا ورلڈ آرڈر کیا ہے؟ یہ ایجنڈا تو وہ قبول کر سکتے ہیں۔ تقریباً سارے سیاستدان امریکہ اور بھارت کے ایجنڈے پر پاکستان میں ایک ہیں۔ اتنا شور تو بینظیر بھٹو کی شہادت پر نہیں مچایا گیا تھا۔ ہمارا میڈیا پاکستان پر رحم کرے اور پاکستانی میڈیا بنے۔ امریکی اور بھارتی میڈیا نہ بن جائے۔ رحمان ملک کو کون بتائے کہ امریکہ اور نیٹو فورسز اس سے یہ بھی کہلوائیں گے کہ بلوچستان دہشت گردوں کا گڑھ ہے جہاں بھارتی مداخلت کا خود وہ اعتراف کر چکے ہیں۔ مغرب، امریکہ اور بھارت پاکستان کو دہشت گردی کا گڑھ کہتے ہیں۔ یہاں کون آپریشن کرے گا؟ پوری دنیا اب ایسی ہے کہ کسی کو نہیں کہا جا سکتا کہ وہ صادق اور امین ہے؟

0 تبصرے:

اپنا تبصرہ تحریر کریں :-

ضروری بات : غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

Urdu Columns Pk
 
اُردو کالمز | #1 اردو کالمز بلاگ 2011 - 2014