Share
"اُردو کالمز" بلاگ پر خوش آمدید۔ بلاگ کو زیادہ سہولت کیساتھ ڈائنامک ویو (Dynamic View) میں دیکھنے اور پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں:

Friday, October 12, 2012

ترکی‘ شام مخاصمت اور مسلم دنیا



شام مغربی ایشیاءکا ایک اہم ملک ہے جس کی سرحدیں لبنان، ترکی، عراق، اردن اور اسرائیل سے ملتی ہیں۔ اس کا دارالحکومت دمشق دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے جو بنو اُمیہ کی خلافت دارالحکومت اور مصر کے مملوک سلطانیت کا صوبائی دارالخلافہ تھا۔ شام پہلی جنگ عظیم کے بعد فرانسیسی نو آبادی بنا اور اپریل1946ءمیں آزاد ہوا۔ 1949 سے1971 تک شام میں بہت بغاوتیں ہوئیں۔ 1970 میں حافظ الاسد شام کے صدر بنے اور 30 سال تک بلا شرکت غیرے حکومت کی۔ 2000 میں صرف 34سال کی عمر میں بشارالاسد نے آئین میں صدر کےلئے چالیس سال عمر کی شرط کو ختم کر کے شام کا عنانِ حکومت خود سنبھال لیا اور اس طرح وہاں ایک آمرانہ وراثتی حکومت پھر قائم ہو گئی لیکن جلد ہی دمشق سپرینگ نے جنم لیا اور بشارالاسد کے مخالف سیاسی دھڑے اکٹھے ہونے شروع ہو گئے۔

مشرق وسطیٰ کی عرب سپرینگ کی وجہ سے شام میں حکومت کےخلاف سیاسی محاذ آرائی اور تیز ہوئی تو حکومت نے اس کو سختی سے کچلنے کی کارروائی کی۔ یہ خانہ جنگی دو سنی قصبوں ہما اور ہمز سے شروع ہوئی اور اب حکومتی دارالخلافے دمشق اور مالیاتی دارالخلافے Aleppo تک پہنچ چکی ہے۔اس خانہ جنگی میں جہاں تقریباً 3500 فوجی مارے گئے وہاں تقریباً15 ہزار سویلین مرد، عورتیں اور بچے بھی ہلاک ہو گئے۔ اور30 ہزار مہاجرین اس وقت صرف ترکی میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ کل تقریباً دولاکھ لوگ ملک بدر اور تقریباً دس لاکھ ملک کے اندر بے گھر ہو چکے ہیں۔

ایک وقت تھا کہ ترکی، شام اور اسرائیل میں معاملات سدھارنے پر لگا ہوا تھا۔ لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ اب ترکی اور شام دونوں مسلمان ممالک ایک دوسرے کو جنگ کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ ترکی کے صدر اردگان نے کہا کہ:

”ہم شام سے جنگ نہیں چاہتے لیکن بدقسمتی سے ہم جنگ کے قریب ہیں۔ شام ہمارے صبر کو نہ آزمائے اور حالات کی سنگینی کو سمجھنے کی کوشش کرے“۔

شام اسرائیل سے بھی کئی لڑائیاں لڑ چکا ہے۔ 1967ءمیں اسرائیل نے گولان پہاڑی سلسلے کے دوتہائی حصہ پر قبضہ کر لیا جو ابھی تک جاری ہے۔ 1976ءمیں شام نے لبنان پر قبضے کی کوشش کی لیکن 2006ءمیں لبنانی سابق وزیراعظم رفیق حریری کے قتل کے بعد محاذ آرائی رک گئی۔ شام ایک زرعی ملک ہے جہاں تیل، صنعت اور ٹورازم بھی حکومت کی آمدنی کا ذریعہ ہیں۔ شام کی آبادی تقریبًا2 کروڑ نفوس پر مشتمل ہے۔ ترکی ایک یوراشین ملک ہے جس کا تقریباً 3فیصدی حصہ یورپ اور باقی97فیصد رقبہ ایشیا میں ہے۔ اسکی آبادی کوئی ساڑھے سات کروڑ نفوس پر مشتمل ہے۔ ترکی میں اسلامسٹ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی حکومت ہے جس کے رہنما ڈاکٹر طیب اردگان ہیں۔ جو اب تیسری بار پارلیمنٹ کی550 نشستوں میں سے 326 نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے وزیراعظم بنے ہیں اور پچھلے دس سالوں سے حکومت کر رہے ہیں۔

اردگان ایک بین الاقوامی سطح کے نڈر، اہل اور دیانتدار مدبر مانے جاتے ہیں جو اپنے ملک میں بھی اپنی عوام دوست پالیسیوں اور عسکری قیادت کے اثر و رسوخ کو آئین کے تابع کرنے کی وجہ سے ہردلعزیز ہیں۔ سوچا یہ جا رہا تھا کہ مسلم دنیا کے وہ واحد رہنما ہیں جو اس مشکل گھڑی میں نہ صرف عرب دنیا بلکہ پوری مسلم امہ میں اتحاد پیدا کر سکتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ان کو شام کی خانہ جنگی میں الجھنا پڑ رہا ہے۔ جس سے اردگان کے تشخص کو مسلم دنیا میں نقصان پہنچ سکتا ہے چونکہ اب جبکہ مسلم ریاستوں میں دو دھڑے بن چکے ہیں۔ جن میں ایک طرف ایران شام اور لبنان ہیں جن کو روس اور چین کی ہمدردیاں حاصل ہیں تو دوسری طرف سعودی عرب بحرین، قطر، اردن، متحدہ عرب امارات جیسے ممالک شامل ہیں جن کو امریکہ اور مغربی طاقتوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ پاکستان، انڈونیشیا اور ملیشیا جیسے بہت سے مسلمان ممالک کو شام میں بشارالاسد کی بعث پارٹی کی پالیسیوں سے شدید اختلافات کے باوجود یہ پریشانی بھی لاحق ہے کہ ترکی ان دھڑوں میں صلح کروانے کی بجائے شام کی حکومت خلاف سرگرم عمل ہے۔ شام کی حکومت کے سیاسی مخالفین نے جو بیرون ملک اپنی حکومت بنائی ہوئی ہے اس کا ہیڈ کوارٹر بھی استنبول میں ہے اور ترکی کے وزیر اعظم اردگان نے اقوام متحدہ کے اجلاس کے خطاب میں بھی شام کے مسئلے کا حل پیش کرنے اور شام میں بیرونی مداخلت کی مذمت کرنے کی بجائے، شام کی حکومت کو ہی اپنی تنقید کا نشانہ بنایا، جس سے یہ تاثر عام ہے کہ ترکی اب امریکہ اور یورپ کو خوش رکھنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اسلامی دنیا کے دانشوروں کی رائے میں ترکی کی شام سے لڑائی بہت بڑی بدنصیبی ہو گی۔ امریکہ، اسرائیل اور مغربی طاقتوں نے پہلے عراق اور ایران کو آپس میں دس سال تک لڑا کر ان کو بے پناہ جانی اور مالی نقصان پہنچایا ۔

پہلے امریکہ رضا شاہ پہلوی کے دور حکومت میں ایران کو اس خطے میں اپنا قریب ترین اتحادی سمجھتا تھا لیکن شہنشاہ کی حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد امریکہ نے ایران، عراق جنگ میں زور شور سے صدام حسین کی مدد کی، پھر صدام کو قتل کرکے کٹھ پتلی حکومت قائم کرلی۔ اب اسرائیل یہ چاہتا ہے کہ امریکہ، ایران پر حملہ آور ہو۔ خوش قسمتی سے اوباما کی امریکی حکومت افغانستان میں شکست سے دو چار ہونے کے بعد عجلت میں ایران پر یلغار کرنا نہیں چاہتی لیکن بدقسمتی سے اگر شام اور ترکی کے درمیان مخاصمت نے جنگ کی شکل اختیار کر لی تو اس سے مسلم دنیا کا بہت نقصان ہو گا اور یہ جنگ تیسری جنگ عظیم میں بھی تبدیل ہو سکتی ہے اس لیے جہاں شام کے حکمرانوں کو ہوش سے کام لیتے ہوئے اپنے ملک کے اندرونی حالات کو جمہوری انداز میں صبر و تحمل سے حل کرنا چاہیے وہاں مغربی طاقتوں کو چاہیے کہ اپنی غیر قانونی بیرونی مداخلت کے ذریعے Regime Change کی پالیسی ترک کر دیں جیسے انہوں نے عراق، افغانستان اور لیبیا میں کیا۔

شام کی سویلین آبادی کو حکومتی جہازوں اور ہیلی کاپٹروں کو مار گرانے والے میزائل دے کر حالات پر قابو نہیں پایا جا سکتا بلکہ مسائل مزید گھمبیر ہو جائیں گے۔ ساتھ ہی ترکی کو ایک مدبرانہ پالیسی اختیار کرتے ہوئے کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہیے جو جنگ کے شعلوں کو ہوا دے۔ ترکی کی پارلیمنٹ نے ابھی تک شام کے خلاف صرف ملٹری آپریشن کی اجازت دی ہے۔ اعلان جنگ نہیں کیا لیکن ترک عوام حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے "NO WAR" کے نعرے لگا رہے ہیں۔ اس وقت ساری مسلم دنیا میں کوئی بھی بڑے قد کاٹھ والا ایسا مدبر، رہبر موجود نہیں جو حالات کی نزاکت کو سمجھنے کی بصیرت رکھتا ہو اور مسلم ریاستوں کے آپس میں ٹکراﺅ کو روک سکے۔ یہ ذمہ داری ترکی کے وزیر اعظم ڈاکٹر طیب اردگان کو پوری کرنی چاہیے۔ بڑی طاقتیں بھی یہ سوچ رہی ہیں کہ وہ اسد حکومت کے خاتمے کے بعد شام میں شیعہ سنی، عیسائی اور کردوں کے درمیان خانہ جنگی کو کیسے روکیں گی۔ اس کے علاوہ وہ شام کے کیمیکل ہتھیارں کے القائدہ کے ہاتھ لگنے کا پراپیگنڈہ بھی کر رہے ہیں۔ مسلمانوں کے مفاد میں بہرحال یہ ہے کہ وہ وسطی ایشیا، جنوبی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور مشرق بعید میں مسلمان ممالک کی سر زمین کو میدان جنگ بننے سے روکنے کیلئے ایک مثالی اتحاد کا مظاہرہ کریں۔

0 تبصرے:

اپنا تبصرہ تحریر کریں :-

ضروری بات : غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

Urdu Columns Pk
 
اُردو کالمز | #1 اردو کالمز بلاگ 2011 - 2014