انسانی دل ایک ایسی چیز ہے جو ہر شخص کے پیدا ہونے سے بھی پہلے دھڑکنا شروع کر دیتا ہے اور مرجانے کے کچھ منٹوں بعد تک بھی دھڑکتا رہتا ہے۔ اس کو چلانے کیلئے انرجی یا کرنٹ کہاں سے آتا ہے؟ اس کا جواب صرف رب العالمین ہی دے سکتے ہیں چونکہ چاند پر اترنے والے امریکیوں اور نینوں ٹیکنالوجی کے ماہرین ،سائنسدانوں کا علم بھی تخلیق کائنات کے خدائی معجزوں کے سامنے بے بس اور لاجواب ہے۔ انسانی جسم کے باقی سارے اجزاءمفلوج بھی ہو جائیں اور صرف دل کی دھڑکن قائم رہے تو زندگی پھر بھی رواں دواں رہتی ہے لیکن ایک تندرست انسان کا دل اگر کام چھوڑ دے تو وہ حیات نہیں رہ سکتا۔
صنعتی اور تکنیکی انقلاب سے قبل جب سڑکیں اور گاڑیاں نہیں تھیں تو لوگ سینکڑوں کلومیٹر پیدل چلا کرتے تھے، زمینوں میں ہل چلائے جاتے تھے، سیڑھیاں چڑھنا، کنوﺅں سے پانی نکالنا اور پھر چھاگلیں اور گھڑے بھر بھرکر پانی گھر لانا، کپڑے دھونا، گندم سے آٹا بنانے کے لئے عورتوں کا چکی پیسنا اور فصلیں کاٹنا وغیرہ مردوں اور عورتوں کے عام کام سمجھے جاتے تھے اور جسمانی تندرستی کا رازا سی میںتھا لیکن آٹو میشن کے آنے کے بعد گاڑیاں، جہاز، ٹریکٹر، ہارولیسٹر، واشنگ مشینز، روبرٹس، ایلی ویٹرز، ریموٹ کنٹرولز اور ویکیوم کلینرز کے آنے کے بعد انسان زیادہ آرام پسند ہو گیا ہے ،جس سے اس کا وجود”پھوکا“ اور جسمانی طاقت کمزورپڑ چکی ہے، ساتھ ہی خالص گندم، باجرہ، جو، جوار اور مکئی کی روٹی سے ہٹ کر اس نے پولٹری کے مرغوں کی طرح اپنی خوراک بھی تبدیل کرلی ہے۔ برگر، آئس کریم، چاکلیٹ، پیزا، بازاری گھی، مشروبات اور مٹھائیوں کے بے دریغ استعمال سے بلڈ پریشر، کلیسٹرول اور شوگر کی بیماریوں نے امراض قلب کو جنم دیا۔ آبادی بڑھنے سے جب بے روزگاری، مہنگائی اور غربت اور افلاس کے مسائل بڑھے تو اس سے بھی انسانوں کی پریشانیوں میں بے حد اضافہ ہو گیا۔ اس Tension نے بھی خون کی نالیوں کو سکیٹرنا اور کلیسٹرول کو بڑھانا شروع کیا تو نتیجہ بلڈ پریشر ، شوگر کی ذیابیطس اور ہارٹ اٹیک کی صورت میں سامنے آیا۔
سال1900ءسے قبل دل کی بیماریاں نہ ہونے کے برابر تھیں لیکن آج امریکہ میں ہر چوتھی اور پاکستان میں ہر تیسری موت دل کی امراض کی وجہ سے ہو رہی ہے۔ دل کی بیماریوں سے بچنے کیلئے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے پر بین الاقوامی اور ملکی سطح پر کافی ادارے کام کر رہے ہیں۔ پاکستان کے اندر معروف ہارٹ سرجن میجر جنرل(ر) ڈاکٹر مسعود الرحمن کیانی کی سربراہی میں پاکستان نیشنل ہارٹ ایسو سی ایشن (PNHA)کاادارہ اس سلسلے میں پیش پیش ہے۔ یہ ادارہ پچھلے تقریباً28 سالوں سے ملک کے کونے کونے میں ایسے سیمینار منعقد کروا رہا ہے جس میں لوگوں کو دل کی امراض سے بچنے کی تدابیر بتائی جاتی ہے ۔ اسی طرح کا ایک سیمینار24 ستمبر کو چکوال میں منعقدہوا جس میں مجھے بھی شمولیت کا شرف بخشا گیا چونکہ میں PNHAکا بہت پرانا رکن ہوں ۔ جنرل مسعود الرحمن کیانی پاکستان کے ہی نہیں بلکہ دنیا کے چند مانے ہوئے ہارٹ سر جنز میں سے ایک ہیں ۔ انہوں نے بہت مدلل گفتگو کی جو لوگوں نے انہماک سے سنی۔ پاکستان میں بہت چوٹی کے امراض قلب کے ماہر ڈاکٹرز موجود ہیں لیکن ہارٹ فزیشنز میں سے ہیں۔
مجھے سب سے زیادہ متاثرمیجر جنرل(ر) ذوالفقار علی خان نے کیا۔ آج سے بیالیس سال پہلے 1970ءمیں جب میری بیگم کی بھوک اور نیند میں خلل پڑنا شروع ہوا تو جنرل ذوالفقار اس وقت بطور میجر آرمڈ فورسز انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے انچارج ڈاکٹر تھے۔ انہوں نے سٹیتھو سکوپ سے چیک کرکے ہی مجھے بتا دیا کہ مریضہ کے دل کے چار Valves میں سے ایک بچپن میں جوڑوں کی بیماری کی بدولت سکڑ گیا ہے جس کےلئے اپریشن ضروری ہے۔ اُس وقت پاکستا ن میں اُوپن ہارٹ سرجری صرف ٹرائل کے طور پر ہی کی جا رہی تھی۔ میجر ذوالفقار الٹراساﺅنڈ وغیرہ کے بغیر ہی صرف Stethoscopeکی مدد سے ہی بتا دیتے تھے کہ دل کی نالی یاValvesکی تنگی اندازاً کتنے ملی میٹر ہے اور پھر اپریشن تھیٹر میں جاکر سرجن کو کہتے کہ مجھے دکھاﺅ کہ میری تشخیص کس حد تک ٹھیک تھی۔ یہ ڈاکٹرز کی وہ Breed تھی جو اپنے پیشے کوبندگی سمجھتے تھے ۔ جنرل مسعود الرحمن کیا نی بھی اسی کلاس کے ڈاکٹرز رہے ہیں اور اب اُن کو ڈاکٹر عبدالقیوم اعوان جیسے قابل ساتھیوں کی مدد حاصل ہے۔
آج کل تعلیم کی طرح ڈاکٹری بھی ،انسانی اقدار سے بے نیاز ،ایک کاروبار بن چکا ہے۔ بہرحال جنرل مسعود الرحمن کیانی کی تقریرکے بعد جب مجھے کچھ کہنے کو کہا گیا تو میں نے عرض کیا کہ دل کودو قسم کی بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں ایک طبی اور دوسری روحانی۔ دونوں بیماریاں دل کو کمزور یا مردہ کر سکتی ہیں لیکن مرد مومن طبی لحاظ سے کمزور دل کی پرواہ نہیں کرتا۔ وہ روحانی دل کی مضبوطی کا متمنی ہو تا ہے لیکن یہاں ایک اور فرق بھی بہت واضح ہے۔ دل کے اندر درد کو طبی ڈاکٹر بجا طور پر ایک بیماری سمجھتے ہیں لیکن خدا کی مخلوق کےلئے درد دل رکھنے والوں کو بے شک بہت عظیم سمجھا جاتا ہے چونکہ ہمارا ایمان ہے کہ....
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کیلئے کچھ کم نہ تھے کرو بیاں
دوسری بات میں نے یہ کہی کہ دل کی شریانیں بند ہونے سے اگر انسان طبعی موت مر بھی جائے تو نقصان اتنا زیادہ نہیں ہوتا جتنا نقصان روحانی نور سے بے نیاز پتھر اور لادین دل کی وجہ سے انسان کو موت کے بعد کی زندگی میں ہو سکتا ہے‘ اس لئے ہارٹ اٹیک کے بعد طبی لحاظ سے بہت ضعیف دل بھی اگر روحانی مہک سے معطر رہے تو سمجھیں کہ وہ انسان بہت مضبوط اور انتہائی خو ش قسمت ہے چونکہ گوشت پوست اور خون کا منبع انسانی دل صرف عارضی زندگی کیلئے ہے لیکن روحانی طور پر صحت مند دل دائمی زندگی میں سرخرو ہونے کیلئے ہے ،اسی لےے روحانی لغت میں دوسروں کے دُکھ اور درد بانٹنے والا شکستہ اور مجروح دل ہی اللہ کی نگاہ میں بہت افضل گردانا جاتا ہے۔
ڈاکٹر علامہ اقبال نے کیا خوب کہا:۔
تو بچا بچا کے نہ رکھ اِسے تیرا آئنہ ہے وہ آئنہ
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئنہ ساز میں
اس لئے جسمانی صحت کا خیال رکھنا تو ضروری ہے لیکن اس سے بھی اہم روحانی صحت کا خیال رکھنا ہے۔ طبی بیماریوں کا علاج طبیب کرتے ہیں لیکن روحانی بیماریوں سے متاثرہ دلوں کا علاج قرآنی تعلیمات ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت وکردار اور اللہ کے ولیوں، فقیروں اور قلندروں کی صحبت میں پنہاں ہے۔ آخرت پر یقین،غیر متزلزل ایمان، مضبوط تقویٰ اور خوفِ خدا انسان کے دلوں کو روحانی طور پر صحت مند رکھتا ہے۔ دکھی انسانیت کی خدمت کے جذبے سے سرشار انسانوں کو اللہ تعالیٰ، جو ہم سب کے صنم ہیں، اپنے قریب تر سمجھتے ہیں۔علامہ اقبال کے اس شعر پر کالم کا اختتام کرتا ہوں....
جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
ترا دل تو ہے صنم آشنا، تجھے کیا ملے گا نماز میں
0 تبصرے:
اپنا تبصرہ تحریر کریں :-
ضروری بات : غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے ۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔