Share
"اُردو کالمز" بلاگ پر خوش آمدید۔ بلاگ کو زیادہ سہولت کیساتھ ڈائنامک ویو (Dynamic View) میں دیکھنے اور پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں:

Tuesday, October 9, 2012

پاک روس تعلقات


روس علاقے کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ ایک کروڑ ستر لاکھ مربع کلومیٹر علاقے کے ساتھ روس دنیا کے تقریباً آٹھویں حصہ پر قابض ہے۔ روس کے علاقے میں نوٹائم زون ہیں۔ تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال دنیا کے اس سب سے بڑے ملک میں صرف چودہ کروڑ لوگ رہتے ہیں۔ تقریباً سارا شمالی ایشا اور مشرقی یورپ روس میں شامل ہیں۔ اسکی سرحدیں مشرق میں بحر اوقیانوس اور مغرب میں مغربی یورپ، شمال میں بحر منجمد شمالی اور جنوب میں مشرق وسطی سے جا ملتی ہیں۔ بیسویں صدی کی ساٹھ کی دہائی میں سویٹ یونین پہلا ملک تھا جس نے انسان کو خلا میں بھیجا۔ ہم نے بدقسمتی سے اُسی زمانے میں پشاور کے پاس اپنے بڈابیر کے ہوائی اڈے کوسویٹ یونین کےخلاف یوٹو جاسوس طیارہ اُڑانے کیلئے امریکہ کے حوالے کیا اور اس طرح سویٹ یونین کی دشمنی مول لے لی۔اس تعاون کے باوجود آج ہم امریکہ کی ڈرون جنگ کے بدترین متاثرین میں سے ہیں۔ ہنری کسنجر نے بالکل ٹھیک کہا تھا کہ امریکہ کی دشمنی کسی بھی ملک کےلئے بُری ہے لیکن امریکہ کی دوستی بدترین ہے۔ 

1991ءمیں سویٹ یونین کے ٹوٹنے کے بعد روس دنیا کی نویں بڑی معیشت بن چکا ہے۔ دنیا میں گیس کی قیمتیں بڑھنے سے روس کی Gazpromسرکاری کمپنی نے صرف پچھلے سال44ارب کا منافع کمایا۔ ساتھ ہی امریکہ میں گیس کے ایک بہت بڑے ذخیرے کا انکشاف ہوا تو گیس کی بین الاقوامی قیمت10ڈالر فی یونٹ سے گر کر صرف3ڈالرز فی یونٹ رہ گئی ۔اس طرح روس کا منافع کوئی 25فیصد گر گیا، ویسے بھی روس کا امریکہ کے ساتھ معاشی یا فوجی تقابل اگلے تیس ،چالیس سال تک بھی ممکن نہیں چونکہ امریکہ ایک مضبوط ملک ہے۔ 

امریکہ کے صدر اوباما نے کہا ہے کہ2020ءتک امریکہ کی تیل اور گیس کی درآمد صرف 50%رہ جائےگی اور وہ اپنی 50% ضروریات میں ملک کے اندر سے پوری کرینگے۔ اسکے علاوہ چھ لاکھ امریکیوں کو گیس فیلڈز پر روز گار بھی ملے گالیکن اس میں بھی شک نہیں کہ جدید روس ایک بین الاقوامی طاقت بننے کے خواب ضرور دیکھ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روسBRICSکا ممبر ہے جس میں چین،ہندوستان، برازیل اور جنوبی افریقہ شامل ہیں۔ اس کو امریکہ کی فوجی حملے کرکے دنیا کے مختلف ممالک میں حکومتیں تبدیل کرنےوالی پالیسی سے اختلاف ہے۔ روس امریکہ کی افغانستان اور عراق میں موجودگی اور لیبیا اور خصوصاً شام میں مداخلت پرمعترض ہے۔ روس چین کے قریب سے قریب تر ہو کر اپنی طاقت بڑھانا چاہتاہے۔ 

ہندوستان جنوبی ایشا میں روس کا دیرینہ ساتھی ہے لیکن پاکستان کو روس اب بھی امریکہ کا طفیلی ملک سمجھتا ہے اور اَسی کی دہائی میں امریکی تعاون سے سویٹ یونین کی افغانستان میں شکست کی ہزیمت کا پاکستان کو ہی ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ اب جب ا مریکہ نے افغان جنگ لڑنے کیلئے پاکستان کی گود میں بیٹھ کر پاکستان کی داڑھی پر قینچی پھیرنی شروع کی تو ریمنڈ ڈیوس، ایبٹ آباد جارحیت اور سلالہ حملہ نے پاکستانی قیادت اور قوم کو اتنا جھنجوڑ کر رکھ دیا کہ این آر او کی کوکھ سے پیدا ہونےوالی سویلین حکومت بھی روس کی طرف دیکھنے پر مجبور ہو گئی۔ 

صدر مملکت نے روس کے کئی دورے کئے۔ آرمی چیف اس وقت روس کے اہم دورے پر ہیں ۔ لگ یوں رہا تھا کہ اب پاک روس تعلقات میں حائل برف کا تودہ پگلنا شروع ہو گیا ہے لیکن روسی صدر پیوٹن کے پاکستان کے دورے کے غیر معینہ مدت کیلئے التواءکی اچانک خبر نے مختلف افواہوں کو جنم دیا ہے۔ کچھ تجریہ نگار پہلے ہی یہ سوچ رہے تھے کہ مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پرروس کے کسی صدر کا یہ پہلا دورہ شاید اب بھی عملی شکل اختیار نہ کر سکے۔ 

(۱)پاکستان اپنے جغرافیائی محل وقوع کے حساب سے اس خطے کا بہت اہم ملک ہے جس کو امریکہ مکمل طور پر اپنی جیب میں رکھنا چاہتا ہے ۔ امریکہ اگر چین کو گوادر میں دیکھ کر ناخوش ہے تو وہ روس کو پاکستان کی وارم واٹر بندرگاہوں کے قریب کیسے برداشت کر سکتا ہے۔ 

(۲)اس حقیقت کے باوجودکہ امریکہ اب ہندوستان کا سب سے بڑی ہتھیار خریدنے کی منڈی بن چکا ہے، ہندوستان اپنی بصیرت افروز سیاسی حکمتِ عملی اور اعلیٰ سفارت کاری کی بدولت نہ صرف روس کے ساتھ اپنا اثرو رسوخ قائم رکھے ہوئے ہے بلکہ چین سے بھی ان کے بہتر تعلقات کی ابتدا ءہو چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستانی پریس اور سیاسی قیادت پﺅ ٹن کے پاکستان کے دورے کی تنسیخ پر بغلیں بجا رہے ہیں۔ چونکہ یہ دورہ اِن کے کلیجے میں ایک خنجر کی طرح پیوست ہونےوالا تھا اور انہوں نے روسی قیادت کو پسِ چلمن ضرور اس دورے سے منع کیا ہو گا۔ 

چونکہ ہندوستان اب بھیT90 ٹینکس، ہیلی کاپٹرز ٹیکنالوجی، نیوکلیئرسب مرین ،ایئرکرافٹ کیریر، 140ایس یو 30فائٹرجہاز اور4000 میگاواٹ بجلی پیدا کرنےوالے چار نیوکلیئر پاور ری ایکٹر خرید رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روس کو ئی ایسا قدم نہیں اٹھا ئے گا جو اسکی ہندوستانی مارکیٹ پر منفی اثرات ڈال سکے۔ 

(۳) امریکہ اور پاکستان میں انتخابات ہونےوالے ہیںاس لئے روس عجلت میں یہ دور ہ کرنے کی بجائے ان انتخابات کے نتائج کے اعلانات کا انتظار کرےگا اور یہ دیکھے گا کہ آنےوالی حکومتوں کا جنوب ایشیا اور خصوصاً افغانستان کی صورتحال پر کیا موقف ہوگا اور خصوصاً آئندہ آنےوالی پاکستانی حکومت امریکی بیساکھیوں کے بغیر کھڑا ہونے کا حوصلہ بھی رکھتی ہے یا نہیں۔ 

(۴) روسی صدر پیوٹن ایک ایسی چار ممالک کی کانفرنس میں شرکت کیلئے آ رہے تھے جس میں روس، افغانستان، پاکستان اور تاجکستان شامل ہیں۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ یہ فورم خود روس نے بنایا تھا لیکن اب جب پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں سرد مہری ہے، تاجکستان کے بھی ان ممالک کے علاوہ روس سے بھی اختلافات ہیں۔ افغانستان سے متعلق امریکی پالیسی بالکل غیر واضح ہے۔ روس کو یہ یقین بھی نہیں کہ موجودہ پاکستانی قیادت اور کتنے ماہ چلے گی تو روسی صدراِن حالات میں پاکستان آکر کیا حاصل کرےگا۔ 

(۵)پاکستان اس وقت تاریخ کے نازک ترین موڑ پر کھڑا ہے۔2004ءسے شروع ہونےوالی ”ڈرون جنگ“ کے شکار ملک کی کمزور ترین سویلین حکومت اپنی بے پناہ مالی بے قاعدگیوں کرپشن، ناگفتہ بہ معاشی حالات اور امریکہ پر مکمل انحصار کی وجہ سے آزاد خارجہ پالیسی کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔اِن حالات میںچوٹی کے سفار ت کار بھی بے بس ہو جاتے ہیں اور بدقسمتی سے پاکستا ن کی سفارتی ٹیم میں ا س وقت نہ تو کوئی تجربہ کار وزیر ہے نہ مشیر۔ پیوٹن کے دورے کا اعلان اور پھراسکی تنسیخ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ یہ سفارتی حادثہ ہماری کمزور سفارت کاری سے ہوا۔ 

ہم نے روس کے صدر کے دورے کا اعلان کرنے سے پہلے اُن کے تحفظات کو کیوں دور نہ کیا؟ جواس دورے کی تنسیخ کا سبب بنے۔ یہ بھی ذہن میںرکھا جائے کہ سفارت کاری ایک بہت ہی حساس اور نازک کھیل ہوتا ہے۔ جس کو موثر طریقے سے کھیلنے کےلئے نہایت تجربہ کار کپتان اور کھلاڑیوں کی ضرورت رہتی ہے۔ اس دورے کا کامیاب بنانے کیلئے ہم چین کی موثر سفارتی مدد لینے میں کیوں ناکام رہے؟ کیا ہندوستان جس کے ساتھ ہم امن کی آشا کی پینگیں بڑھا رہے ہیں اور اس کو موسٹ فیورٹ نیشن کا درجہ دے کر وسطی ایشائی ریاستوں تک رسائی بھی دینا چاہتے ہیں ،سے ہم نے کوئی سفارتی رابطہ کیا کہ اگر وہ کوئی مدد نہیں کر سکتا تو کم از کم ہماری پیٹھ میں چھرا تو نہ گھونپے۔ 

ہم دعا گو ہیں کہ پاکستان کے روس سمیت تمام اہم ممالک سے بہترین تعلقات قائم ہو جائیں لیکن اس کیلئے محنت اور بہت سارا ہوم ورک درکار ہے۔شنگھائی کواپریشن آرگنائزیشن(SCO) کا مکمل رکن بننا ہماری اہم ضرورت ہے۔اسی طرح اکنامک کواپریشن آرگنائزیشن (ECO)کو بھی موثر بنانا ہوگا۔ اسکے علاوہ واضح اہداف بھی ہمارے ذہن میں ہونے چاہیں کہ ہم ان ممالک سے ملکی مفاد میں کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ 

خصوصاً تجارت ، انرجی، تیل اور گیس کی تلاش، سٹیل سیکٹر اور ڈیفنس پر وڈکشن کے شعبوں میں روس سے مدد لی جا سکتی ہے۔ یہ معاملات ہمیں پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے روسی وزیر خارجہ کے سامنے بھی رکھنے چاہئیں۔ 

0 تبصرے:

اپنا تبصرہ تحریر کریں :-

ضروری بات : غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

Urdu Columns Pk
 
اُردو کالمز | #1 اردو کالمز بلاگ 2011 - 2014