Share
"اُردو کالمز" بلاگ پر خوش آمدید۔ بلاگ کو زیادہ سہولت کیساتھ ڈائنامک ویو (Dynamic View) میں دیکھنے اور پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں:

Monday, October 8, 2012

سیاست اور شاعری کا حنائی رنگ


اسی دن مجھے حنا بابر علی نے اپنا شعری مجموعہ ”گردش دوران“ بھیجا جب حنا ربانی کھر اپنا امریکی دورہ مکمل کر کے سیدھی لاہور پہنچیں اور ائرپورٹ پر کھڑے صحافیوں سے بات کئے بغیر گھر چلی گئیں۔ کہیں کوئی شرارتی صحافی بلاول بھٹو زرداری کے حوالے سے سوال نہ پوچھ بیٹھے۔ ان کیلئے ایک امریکی اخبار نے معاملات دوستی کی کچھ کہانیاں شائع کی ہیں۔ دوستی کا زمانہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ دوستی اتنی خطرناک کیوں ہو جاتی ہے۔ امریکہ میں بھی اسے ہمارے لئے سکینڈل بنا دیا جاتا ہے پھر سکینڈل کرپشن بن جاتا ہے۔ پاکستانی حکمران تو کچھ گڑبڑ کرتے ہوں گے۔ امریکی حکمران بھی اس کی زد میں آتے ہیں مگر انہیں اعتراض صرف جھوٹ پر ہے۔ حنا امریکہ کے بہت حق میں بولتی ہیں۔ یہ خبریں پاکستانی اخبار میں چھپی ہوتیں تو ایک کہرام بپا ہو گیا ہوتا۔ اگرچہ پاکستانی میڈیا میں بھی ہر طرح کی خبروں کیلئے حوالہ امریکی میڈیا کا آتا ہے۔ ہمارے وی آئی پی سمجھتے ہیں کہ بیرون ملک جو کچھ بھی ہو گا۔ وہ چھپا رہے گا۔ مگر وہ چھپ بھی سکتا ہے۔ ہمارے حکمران اور سیاستدان پاکستان میں بدمعاشی کرتے ہیں اور یورپ امریکہ میں عیاشی کرتے ہیں۔ اب دبئی بھی اس میں شامل ہے۔ حنا ربانی کھر نے اس معاملے کے اخبارات میں آنے کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ ایک ہلکا پھلکا بیان دیا۔ بلاول نے تو یہ بھی نہیں کیا۔ میرا خیال ہے کہ یہ وضاحت والد محترم آصف زرداری کی طرف سے آئے گی۔ میں نے تو یہ بھی سنا ہے کہ صدر زرداری کچھ پریشان ہیں۔ وہ بلاول کی شادی بڑی دھوم دھام سے کرنا چاہتے تھے۔ فریال تالپور اجمیر شریف گئی ہیں۔ وہ کوئی منت وغیرہ مانیں ورنہ منت سماجت کریں۔

میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ پاکستان کی وزارت خارجہ کا حنائی رنگ بکھرتا جا رہا ہے۔ لوگوں نے غلام مصطفی کھر کی بھتیجی کے نسائی کمال بلکہ حنائی کمال کا بہت ذکر کیا ہے۔ کھر کئی شادیوں کو ضروری سمجھتے تھے۔ آخری شادی ابھی باقی ہے۔ سیاستدان مردوں کی شادیوں کی تاریخ بناتے رہتے ہیں۔ اب سیاستدان عورتیں کوئی نئی کہانی لکھ رہی ہیں۔ اب وہ بھی شادیاں کرتی ہیں۔ ابھی کچھ مشکلات ان کی راہ میں ہیں۔ بھارت کے دورے میں حنا ربانی کھر کے سامنے بھارتی وزیر خارجہ کرشنا کچھ بجھے بجھے نظر آئے۔ حسن اور حکومت مل جائیں تو کچھ نہ کچھ ہوتا ہے۔ البتہ کرشنا پاکستان آئے تو ہشاش بشاش تھے۔ اس میں کوئی کمال حنا ربانی کھر کا ہو گا مگر رحمن ملک کی ”داخلی رحمانیاں“ زیادہ جوبن پر تھیں۔ اب کے انہوں نے وزارت داخلہ اور وزارت خارجہ کا فرق ہی مٹا دیا۔

اس سے پہلے کہ داستان سیاست اور داستان محبت میں فرق نہ رہے۔ زیب داستاں کیلئے حنا بابر علی کی حنائی شاعری سن لیں۔ حنا ربانی کھر اور حنا بابر علی کی ملاقات اب بہت ضروری ہو گئی ہے۔ کسک اور گداز ”گردش دوراں“ کی شاعری میں تڑپ رہا ہے۔ نسائی جذبات کے اظہار کا حنائی رنگ دل والوں کو بھی رنگین مزاج بنائے جا رہا ہے۔ ان کی نظمیں دل پر اثر کرتی ہیں۔ غزل نہیں لکھی مگر حمد نعت اور سلام لکھے ہیں عقیدت اور محبت ملتی ہے تو تخلیق جنم لیتی ہے۔ یہ شاعری وزیراعظم پرویز اشرف بھی پڑھ سکتے ہیں۔

ہم اور بھلا بتلائیں کیا

خط لکھنے پر پابندی ہے

کچھ کہنے پر پابندی ہے

ہے حسنِ نظر پہ پابندی

اور عشق پر بھی پابندی ہے

ہے میری نگاہ پہ پابندی

اور دل پہ بھی پابندی ہے

پابند ہے جیون سارا ہی

اور دل کو ہمارے چین نہیں

ہم ہوش میں آئیں تو کیسے

حنا ربانی کھر نے کہا ہے کہ ڈرون حملوں کا مقصد ٹھیک ہے مگر طریقہ ٹھیک نہیں۔ اس سے تو یہی بات سامنے آتی ہے کہ ہماری حکومت امریکی غنڈہ گردی پر راضی برضا ہے مگر راضی نہیں۔ امریکہ ہمارا محبوب ہے اور محبوب کے ظلم و ستم پر احتجاج کیا جا سکتا ہے۔ اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ ایک دوست ہیں ”ابونشر“۔ انہوں نے شاعری کی زبان میں بات کرتے ہوئے امیر مینائی کو یاد کیا ہے۔ کتنا برمحل شعر ہے

وہ بے دردی سے سر کاٹیں امیر اور میں کہے جاں

حضور آہستہ آہستہ جناب آہستہ آہستہ

حنا ربانی کھر زندگی کے مزیدار لمحوں میں آہستہ آہستہ کہنے کے مرحلوں سے بار بار گزری ہوں گی۔

میں نے سمجھا تھا کہ تو ہے تو درخشاں ہے حیات

یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے

امریکی وزیر خارجہ ہلیری کے سامنے ہماری نئی نویلی وزیر خارجہ کم حیثیت تو بالکل نہیں لگتیں۔ کم عمر ضرور لگتی ہیں۔ اس کے سامنے ہلیری خود بخود بڑی عمر کی لگنے لگتی ہیں۔ آج کل وہ کم عمر بننے کی بھرپور مگر ناکام کوشش کر رہی ہیں۔ پلاسٹک سرجری اور ہیئر سٹائل میں تبدیلی سے وہ کچھ کم عمر یعنی کم بوڑھی لگتی ہوں گی مگر گریس فل نہیں لگتیں۔ہماری وزیر خارجہ اتنی کم عمر بلکہ کمسن ہے کہ ہلیری احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔ ورنہ حنا ربانی کھر ان کی پوری فرماں بردار ہیں۔ بھارتی وزیر خارجہ کیلئے تو لگتا ہے کہ کسی موقعے پر حنا نے اسے انکل کہہ دیا ہو گا۔ ہلیری نے ایک مشرقی بیوی کی طرح کلنٹن کو بدنامی اور بربادی سے بچا لیا۔ ورنہ مانیکا اور میڈیا اسے لے بیٹھا تھا۔ یہودی لابی بھی سرگرم تھی۔ وہ اگر روایتی بیوی ہوتی تو سب کچھ تباہ ہو گیا ہوتا۔ میں کہا کرتا ہوں کہ عورت میں نباہ کرنے اور تباہ کرنے کی یکساں طاقت ہوتی ہے۔ امریکہ والے اس کے شکرگزار ہوں یا نہ ہوں۔ پاکستان میں اس کیلئے بہت عزت اور پذیرائی ہوئی۔ امریکی وزیر خارجہ بن کر اس نے ساری محبت عزت گنوائی جو پاکستانیوں کے دلوں میں تھی۔ کوئی جتنا ہی اچھا ہو امریکی وزیر خارجہ بن کر وہی ہو جائے گا جو امریکی وزیر خارجہ ہوتا ہے۔ پاکستانی وزیر خارجہ بھی ایک جیسے ہوتے ہیں۔ آپ دیکھ لیں کہ ایک ساتھ تین وزیر خارجہ تحریک انصاف میں ہیں۔ خورشید محمود قصوری‘ سردار آصف احمد علی اور شاہ محمود قریشی۔ میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ حنا ربانی کھر اور شاہ محمود قریشی میں کوئی فرق نہیں۔ حنا ربانی کھر کا مستقبل بھی تحریک انصاف میں ہے؟

اسلام آباد میں ہلیری کے ساتھ میڈیا کی گفتگو میں ایک خاتون نے کہہ دیا کہ پاکستان کی طرف سے اتنی فرماں برداری کے بعد آپ کا سلوک ایک جابر اور ڈاہڈی ساس کا ہے۔ ان کے ساتھ بیٹھی ہوئی حنا ربانی کھر ایک کمزور اور محکوم بہو کی طرح لگ رہی تھیں۔ ہلیری کی بہو کے طور پر حنا کچھ بھی کر لیں۔ امریکی ساس اس کے ساتھ کبھی راضی اور مہربان نہ ہو گی۔ بہو کبھی ساس کو خوش نہیں رکھ سکتی۔ اسے اپنے شوہر کو اپنے ہاتھ میں لینا ہوتا ہے۔ یہ بھی اب مشکل کام ہے۔ پاکستان کا شوہر کون ہے؟ بوجھیں تو جانیں۔ مگر ایک بات طے ہے کہ کبھی شوہر محبوب نہیں ہوتا۔ یہ حقیقت حنا ربانی کھر بھی خوب جانتی ہیں۔ اب تو مانتی بھی ہیں۔ اس حقیقت کے تلخ حقیقت بننے کا بھی اندیشہ ہے۔ صدر زرداری کیلئے بہت بڑا ”امتحان“ ہے؟

0 تبصرے:

اپنا تبصرہ تحریر کریں :-

ضروری بات : غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

Urdu Columns Pk
 
اُردو کالمز | #1 اردو کالمز بلاگ 2011 - 2014