یہ تو ہم نے کبھی سوچا نہ تھا کہ چیف جسٹس اور آرمی چیف کبھی دوبدو کر دئیے جائیں گے۔ یہ بھی نہ سوچا تھا کہ وہ کبھی روبرو ہوں گے۔ اپنے طور پر ایک بات آرمی چیف نے کی اور پھر چیف جسٹس نے کی۔ دونوں کو شاید میڈیا سے ایک دوسرے کی بات کا پتہ چلا ہو۔ بات دونوں کی ایک ہی ہے۔ لگتا ہے کہ دونوں کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں۔ ہم نے ہمیشہ یہ سوچا تھا چاہا بھی تھا کہ دونوں چیف مل کر مل جل کر گھل مل کر اس ملک کو برباد اور بدنام ہونے سے بچائیں۔ یہ تو ہمارے وہم و گمان میں نہ تھا کہ اُنہیں ایک دوسرے کے مقابلے میں لا کھڑا کیا جائے گا۔ ان کو تو ایک ساتھ پاکستان کے دشمنوں اور دشمنوں کے ایجنٹوں کا مقابلہ کرنا ہے۔
لگتا ہے کہ میڈیا نے حیرت انگیز کام کئے ہیں اور اس سے پریشان کن کام بھی لئے گئے ہیں۔ پہلے لوگ اور میڈیا صدر زرداری کے خلاف تھا۔ پھر نااہل اور کرپٹ وزیراعظم گیلانی کے خلاف کر دیا گیا۔ اور وہ ایوان صدر سے ہوتے ہوئے گھر چلے گئے۔ نجانے اس کا کریڈٹ میڈیا کو دیں یا صدر زرداری کو۔ پہلے میڈیا بھی ان کے خلاف تھا۔ اب ان کے حق میں نہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ان کے خلاف نہیں۔ میڈیا نے صدر زرداری کو کرپٹ کہا۔ پھر میڈیا کو کرپشن کے الزامات میں پھنسا دیا گیا۔ پہلے عدلیہ بلکہ چیف جسٹس چودھری اور صدر زرداری کے درمیان ایک کشمکش سی تھی۔ چیف جسٹس کسی کی تعزیت کے لئے نہیں گئے مگر اپنی معزولی کے دوران شہید بے نظیر بھٹو کی تعزیت کے لئے گئے اور وہ بھی آصف زرداری کے پاس۔ یہ اعتزاز احسن کی سیاست اور سازش تھی۔ تو پھر وہ یہ بھی کرتے کہ جب آصف زرداری صدر بنے تو پہلا صدارتی حکم عدلیہ کی بحالی یعنی چیف جسٹس کی بحالی ہوتا۔ وہ خود یہ فیصلہ کرتے مگر صدر زرداری کی سیاست کسی کی سمجھ میں نہیں آتی۔ یہ سیاست کچھ دیر کے لئے توخود انہیں اپنی سمجھ میں نہیں آتی۔ کبھی کسی کو مخالف کرنا ہے اور کب اس کو ساتھی بنانا ہے۔ یہ ٹائمنگز صرف صدر زرداری کو معلوم ہے۔ سیاستدانوں نے وکلاءتحریک چھیننے کی کوشش کی۔ اعتزاز احسن پیپلز پارٹی کے علاوہ نوازشریف کے بھی ساتھ تھے۔ اصل کریڈٹ جنرل کیانی کا ہے کہ انہوں نے غیر محسوس مداخلت سے چیف کو بحال کرا دیا۔ بحال صدر زرداری نے کیا۔ لانگ مارچ شارٹ کٹ بن گیا۔ مگر نااہل اور کرپٹ وزیراعظم گیلانی کی ڈھٹائی اور کمپلیکس دیکھیں کہ وہ چیف کو بحال کرنے کا دعویٰ کرنے لگے۔ ان سب گستاخیوں کا پتہ صدر زرداری کو تھا۔ گیلانی کو سپریم کورٹ نے نکالا مگر نکلے وہ ایوان صدر سے تھے۔ امید ہے کہ اصل بات آپ کو سمجھ میں آ گئی ہو گی۔ سب سے پہلے یہ بات آصف ہاشمی کی سمجھ آ گئی تھی۔ چنانچہ وہ رحمان ملک کی جگہ صدر زرداری کا جاسوس بن کر گیلانی صاحب کے ساتھ ساتھ رہے۔ بات کی سمجھ گیلانی صاحب کو بھی آ گئی ہے مگر وہ سمجھنے کے لئے تیار نہیں۔ راجہ صاحب بھی انہیں سمجھانے کے لئے تیار نہیں۔
صدر زرداری نے حسین حقانی کو جرنیلوں کے خلاف استعمال کیا۔ اب جرنیل اور حقانی دونوں محفوظ ہیں؟ امریکہ کے حقانی گروپ سے صدر زرداری کا حقانی گروپ زیادہ خطرناک اور کامیاب ہے۔ صدر زرداری نے ملک ریاض کو چیف جسٹس کے خلاف میدان میں اتارا اس سے پہلے چیف کے فرماں بردار بیٹے ارسلان کو ملک ریاض کے میدان میں لایا گیا۔ اب خاموشی ہے؟ عدلیہ کے لئے یہ تاثر پیدا کیا گیا کہ وہ صدر زرداری کے خلاف اور نوازشریف کے حق میں ہے، اس کے ساتھ آرمی چیف کے لئے اسی قسم کے تاثر کا گمان پیدا کیا گیا۔ یہ تھی بدگمانی مگر صدر زرداری کی سیاست نے اسے خوش گمانی میں بدل دیا اور اب عدلیہ اور فوج روبرو لائے گئے ہیں۔ وہ آسانی سے دوبدو ہونے والے ہیں۔ ثابت ہوا کہ صدر زرداری بڑے کامیاب سیاستدان ہیں۔ اس میں منفی یا مثبت کی بحث نہیں۔ کیونکہ ہمارے ہاں کبھی مثبت سیاست کی ہی نہیں گئی۔ جرنیلوں نے بھی سیاست کی۔ ججوں نے بھی کی اور سیاستدانوں نے بھی کی۔ وہ جو کچھ کرتے ہیں اسے ”سیاست“ ہی کہا جا سکتا ہے۔ یہ تینوں قسم کی سیاست ایک جیسی ہے۔
ایبٹ آباد کا معاملہ فوج اور حکومت کے درمیان تھا جبکہ پارلیمنٹ کو خواہ مخواہ درمیان میں لانے کی کوشش کی گئی۔ جرنیل بھی پارلیمنٹ میں صفائی دینے کے لئے پہنچے اور یہ اقدام سیاسی تھا فوجی نہ تھا۔ کبھی لگتا ہے کہ ایبٹ آباد ڈرامے کے لئے پاکستانی حکومت اور فوج ساتھ ساتھ ہے اور کبھی لگتا ہے کہ وہ دور دور ہیں۔ مگر یہ بات طے ہے کہ دونوں بلکہ سارے امریکہ کے ساتھ ضرور تھے۔ مگر اس موقعے پر صدر زرداری کا خط جس میں امریکہ کو مبارکباد دی گئی ہے۔ سپریم کورٹ نے طلب کیا ہے۔
بلوچستان کے گمشدہ لوگوں کے لئے سپریم کورٹ کی عدالتی سیاست سے یہ محسوس ہوا ہے کہ فوجی ادارے وہاں اس صورتحال کے ذمہ دار ہیں۔ مگر رحمان ملک نے کئی بار کہا ہے کہ وہاں بھارتی مداخلت ہو رہی ہے تو اس پر سوچنا ضروری تھا کہ وہاں پاک فوج نہ ہوتی تو غیر ملکی فوجیں بہت جلدی بھارتی مقصد پورا کر لیتیں۔ کبھی کشمیر میں بھارت کی لاکھوں کی فوج پر تنقید ہوئی ہے۔ سارے ملکوں میں فوجیں وہ سب کچھ کرتی ہیں جو وطن کی سکیورٹی کے لئے ضروری ہوتا ہے مگر پاکستان میں فوج کو بدنام اور ناکام کرنے کی مسلسل سازش ہو رہی ہے۔ اب اس میں عدالت کا کردار مضبوط ہونا چاہئے۔ محتاط بھی ہونا چاہئے۔ جیالے اور متوالے سیاستدان کہتے کہ بلوچستان کا مسئلہ طاقت سے حل نہیں ہو گا۔ بھارت نے اپنے سارے ایسے مسائل طاقت سے حل کر لئے ہیں۔ امریکہ بھی اپنے مسائل طاقت سے حل کرتا ہے۔ کمزور اور بزدل لوگ یہ بات کیا کرتے ہیں۔ فراست کے ساتھ طاقت ضروری ہے جیسے حکمت کے ساتھ حکومت۔ زرداری آخر صدر کیوں بنے ہیں۔ ایک اتفاقیہ بات کہ چیف جسٹس اور آرمی چیف کے خطاب میں چند گھنٹوں کا فرق تھا۔ دونوں کو پہلے روبرو کیا پھر دوبدو کر دیا۔ اس طرح سیاستدانوں کو کچھ فائدہ نہیں ہو گا۔ صرف صدر زرداری کو فائدہ ہو گا اور وہ سیاستدان سے کچھ آگے کی چیز ہیں۔ انتخابات ملتوی ہونے کا اندیشہ بھی ہو سکتا ہے مگر صدارتی انتخابات تو اپنے وقت پر ہونگے۔ جنرل کیانی نے کہا ہے کہ تمام ادارے اپنی آئینی حدود میں رہیں تو یہ بات صدر زرداری کے لوگ کئی بار کہہ چکے ہیں۔
کئی اینکر پرسن فوج کے خلاف بہت دیر سے مہم چلا رہے ہیں۔ حیرت ہے کہ ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو پاکستان میں مختلف ایجنسیوں سے پیسے لیتے رہے ہیں۔ ان کو اب پیسے انٹرنیشنل ایجنسیوں سے آ رہے ہوں گے۔ جمہوریت تو ٹھیک ہے مگر جعلی جمہوریت کا کیا کریں۔ مجھے مغربی اور امریکی جمہوریت کی سمجھ بھی نہیں آتی۔ امریکہ نے جمہوریت کو عالم اسلام بالخصوص پاکستان کی ذلت و خواری کے لئے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ فوجی آمریت کی حمایت کرنے والا ”ایسی جمہوریت“ کی حمایت کرے گا۔ میں فوجی مداخلت کے خلاف ہمیشہ لڑتا رہا ہوں مگر جمہوریت کا شور مچانے والے کتنے جمہوری ہیں؟ فوج کا رابطہ عوام سے رہنا چاہئے۔ فوجی افسران کا طرز زندگی طرز رہائش عام لوگوں جیسا کیوں نہیں بلکہ فوجی جوانوں اور فوجی افسروں کی زندگی میں زمین و آسمان کا فرق کیوں ہے۔ سول بیورو کریسی اور ملٹری بیورو کریسی اور سیاسی بیورو کریسی نے پاکستان کو برباد کر دیا ہے اور پاکستانیوں کو اذیت میں مبتلا کر دیا ہے۔ یہاں فوجی حکومت اور سیاسی حکومت میں ذرا بھر فرق نہیں تھا۔ جرنیل کے ساتھ سیاستدان ہوتے ہیں جو مل کر آمریت چلاتے ہیں اور پھر جمہوریت کے مزے بھی اٹھاتے ہیں۔ فوجی اشرافیہ اور سیاسی اشرافیہ میں کوئی فرق نہیں تو یہ بات ٹھیک ہے جو جنرل کیانی نے کہا کہ سب نے ماضی میں غلطیاں کی ہیں۔ کیا اب سب مل جل کر اپنی غلطیوں کا ازالہ کر سکتے ہیں؟
0 تبصرے:
اپنا تبصرہ تحریر کریں :-
ضروری بات : غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے ۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔