مجھے تو بالکل معلوم نہ تھا کہ اسلامک مائیکرو فنانس کیا ہے۔ میں تو بے شمار شاعر اور بے حساب دوست فرحت عباس شاہ کے بلاوے پر صبح سویرے وٹرنری یونیورسٹی پہنچ گیا یہاں ایک اعلیٰ افسانہ نگار علی نواز شاہ تھا کہ وہ فرحت کا جانثار ساتھی ہے۔ ایم پی اے حمیرا اویس بھی تھی کہ وہ بہت جذبوں والی مضبوط خاتون ہے۔ پنجاب اسمبلی میں سود کے خلاف جنگ آزمائی میں اس کی آواز بلند ہوتی رہی اور وہ خود سربلند ہوتی رہی۔ کچھ دن پہلے وہ پنجاب یونیورسٹی میں تھی۔ اسی ہال میں دلیر اور دانشور وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران نے مجاہد صحافت چیف ایڈیٹر روزنامہ نوائے وقت مجید نظامی کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری عطا کی اور یہ ایشیا بھر میں پہلا واقعہ ہے کہ حرف و خیال کے ایک جرات مند اور جینوئن وارث کو یہ ڈگری عطا کی گئی۔ اس طرح ڈاکٹر مجاہد کامران نے پنجاب یونیورسٹی کو بھی ایک اعزاز عطا کیا۔
یہاں سود کے حوالے سے ایک سیمینار بھی ہوا اور اس کی صدارت بھی ڈاکٹر مجاہد کامران نے کی تھی۔ شیخ عمر ابراہیم ویڈالو نے خصوصی لیکچر دیا۔ ایثار رانا اس شاندار تقریب کے لئے بہت سرگرم تھے۔ حمیرا اویس سود کے خلاف جہاد کے لئے آگے آگے ہوتی ہیں۔ وہ ایک بہادر خاتون ہیں۔ اپنے مرحوم شوہر کی جدائی میں انہوں نے جو معرکہ آرائی جاری رکھی ہوئی وہ خراج تحسین کی حقدار ہیں۔ مگر اس تقریب میں انہیں دیکھ کر میں حیران ہوا تو انہوں نے بتایا کہ فرحت عباس شاہ بھی سود سے پاک اسلامی بینکاری کے لئے ایک مہم چلا رہے ہیں۔ حمیرا نے بتایا کہ اللہ نے کسی گناہ کے خلاف جنگ کا اعلان نہیں کیا مگر سود کے خلاف جنگ کا اعلان کیا ہے۔ ہم سودی نظام کی مجبوری میں جکڑے ہوئے ہیں تو ہم نے اللہ کے خلاف جنگ شروع کر رکھی ہے۔
فرحت عباس شاہ کی ساری زندگی محنت تخلیقی جہاد سے عبارت ہے۔ وہ زندگی سے بھرپور کئی راستوں پر چلتا ہوا مسافر ہے ہم سفر بھی ہے۔ وہ منزلوں کا متلاشی نہیں راستوں سے پیار کرنے والا ہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب اور روشانے ظفر نے چھوٹے قرض دینے سے ایک فلاحی پروگرام شروع کیا۔ اس طرح کچھ لوگوں کو اپنے پاﺅں پر کھڑا ہونے کا موقع ملا۔ مگر فرحت نے لوگوں کو ایک عملی زندگی بنانے میں مدد دی۔ قرض ایک مرض بھی ہے فرحت نے شفا بانٹنے کی کوشش کی ہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کی تنظیم کا نام ”اخوت“ ہے اور یہی چیز ہماری زندگیوں سے ختم ہو گئی ہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب اب پنجاب حکومت کے ساتھ اتحاد کر چکے ہیں اور یہ فلاحی ادارہ اب اتحادی حکومت کا روپ بھی اختیار کر چکا ہے۔ روشانے ظفر کی تنظیم کا نام ”کشف“ ہے۔ یہ بہت بڑا کام ہے مگر خلق خدا ابھی کشف و کرامات کی منتظر ہے۔
فرحت نے قرض کے اس راستے پر ایک اور راستہ تلاش کیا ہے۔ قرض کی بات بھی حیرت انگیز ہے۔ کہتے ہیں لوگ قرض واپس کر دیتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ چھوٹے چھوٹے قرض ہوتے ہیں ہمارے حکمران سیاستدان اور ان کے عزیز بنکوں سے بڑے بڑے قرض لیتے ہیں اور واپس نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں قرضے واپس نہیں کئے جاتے معاف کرا لئے جاتے ہیں۔ اب تک اربوں روپے کے قرضے معاف کرائے جا چکے ہیں۔ بنکوں میں پیسہ تو عوام کا ہوتا ہے۔ دوسروں کا پیسہ بنکوں کو معاف کرنے کا کیا حق ہے۔ قرض حسنہ تو بنکوں میں ہوتا ہی نہیں۔ قرض حسنہ کے لئے پوچھا گیا کہ یہ کیسا ہے۔ تو جواب ملا قرض حسنہ کا مطلب یہ ہے کہ جب قرض دینے والا قرض مانگے تو مقروض ہنسنا شروع کر دے۔ یہ بھی قرض حسنہ ہو گا کہ جب مقروض کو فون کیا گیا تو اس نے کہا کہ آواز نہیں آ رہی۔ درمیان میں لائن ملی ہوئی تھی۔ اس نے کہا کہ جناب آواز تو آ رہی ہے تو وہ بولا کہ تمہیں آواز آ رہی ہے تو قرضے کے پیسے تم دے دو۔
میں نہ قرض دینے والوں میں سے ہوں نہ قرض لینے والوں میں سے ہوں۔ البتہ میں ایک محترم خاتون کا مقروض ہوں۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے کرنے کے بعد میں یونیورسٹی اورینٹل کالج میں داخل ہو گیا کہ میرے پاس رہنے کو جگہ نہ تھی اور کھانے کے پیسے نہ تھے۔ یہاں ہوسٹل بھی ہوتا ہے اور میس بھی۔ میرا ارادہ امتحان دینے کا نہ تھا۔ میں طلبہ سیاست میں پڑ گیا۔ مجھے یونیورسٹی میگزین ”محور“ کا چیف ایڈیٹر بننے کی پیشکش کی گئی۔ 2012ءمیں ڈاکٹر مجاہد کامران نے ”محور“ کا ایک انتخاب شائع کیا ہے جو شاندار اور تاریخی ہے۔ میں اس کی بھی مجلس ادارت میں ہوں۔ میرے خیال میں ایک ہی ایم اے کافی ہے۔ اس کے بعد میں نے ڈاکٹریٹ کر لی۔ جب ایم اے کا امتحان قریب آیا تو میری ایک کلاس فیلو نے میرے دوست سے پوچھا کہ اجمل امتحان دے رہا ہے تو اس نے کہا وہ خاک امتحان دے گا اس کے پاس داخلہ امتحان کے پیسے ہی نہیں۔ دوسرے دن اس شاندار لڑکی نے داخلے کے پیسے دوست کو لا دئیے اور کہا کہ اسے نہیں بتانا۔ اس دوست نے امتحان کے بعد بتایا کہ مجھے معلوم تھا تم نے امتحان نہیں دینا اور میری ضرورت تب تم سے زیادہ تھی لہٰذا میں نے پیسے خرچ کر لئے۔ میں نے اسے کہا کہ تم نے ٹھیک کیا اور اس سے کبھی وہ پیسے نہ لئے۔ کچھ عرصے کے بعد اس خاتون سے ملاقات ہوئی اور میں نے اس سے کہا کہ میں تمہارے پیسے واپس کر سکتا ہوں مگر میں تمہارا مقروض رہنا چاہتا ہوں۔ اس نے کہا کہ تم مجھے کروڑوں روپے دے دو تب بھی اس فقرے کا لطف اس سے زیادہ ہے اور میں آج تک اس کا مقروض ہوں۔ سوچتا ہوں کہ مقروض اور محبوب میں کیا فرق ہے۔
اور میں آج یہ اعلان بھی کر رہا ہوں کہ میں فرحت عباس شاہ کا مقروض ہوں۔ جو شخص آپ کے ساتھ پہلے محبت کا اظہار کر دے تو آپ اس کے ہمیشہ کے لئے مقروض ہو جاتے ہیں۔ میں کوشش کرتا رہتا ہوں مگر فرحت عباس شاہ کا قرض ختم ہی نہیں ہوتا۔ حالانکہ اس میں سود کے پیسے شامل نہیں ہیں۔ فرحت نے قرض کا سلسلہ ترک کرکے لوگوں کو بکریاں وغیرہ دینا شروع کر دی ہیں۔ دو بکریوں سے پورا ریوڑ بن جاتا ہے۔ اس طرح آدمی کسان اور چرواہا بن جاتا ہے۔ یہ دونوں بہترین شہری ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ غریب کو بھکاری نہیں کاروباری بنانا ہے۔ ہم مقروض نہیں لوگوں کو محبوب بنائیں گے۔ وہ نفع نقصان میں شامل ہوں۔ فرحت کے ادارے نے اب تک 300 بکریاں غریب لوگوں کو دی ہیں۔ بکریوں کا ریوڑ خوبصورت جلوس ہوتا ہے۔ بکریوں کا یہ سفر ختم ہونے میں نہیں آتا۔ نقد روپے تو خرچ ہو جاتے ہیں اور بہت کم لوگ کاروبار بنا سکتے ہیں۔ یہی کچھ امریکہ نے پاکستان کے ساتھ کیا ہے۔ اس طرح ڈالروں کی یہ امداد اور قرض ہمارے حکمرانوں کو کرپٹ کرتا ہے وہ اپنی جیبیں بھرتے ہیں اور لوگوں تک کچھ نہیں پہنچ پاتا چین نے مختلف پراجیکٹس میں ہماری مدد کی اور ہم شاہراہ ریشم چشمہ بیراج واہ فیکٹری ٹیکسلا کمپلیکس اور گوادر پورٹ وغیرہ بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ایسا ایک بھی پراجیکٹ امریکہ کے نام سے نہیں۔ کراچی کی سٹیل ملز بھی روس کی مدد سے بنی ہے۔
بکریوں کے اس فلاحی منصوبے کے لئے فرحت نے وٹرنری یونیورسٹی کو کانفرنس کے لئے منتخب کیا ہے۔ تعلیمی فلاحی مزاج کے بہت بڑے پروفیسر ڈاکٹر پاشا وائس چانسلر ہیں۔ وہ اجلاس میں موجود تھے۔ ان کا خطاب کلیدی تھا۔ حمیرا اویس نے بھی بہت اچھی باتیں کیں۔ صدر محفل جسٹس خلیل الرحمن نے سود کے حوالے سے حمیرا اویس کی بات کو بہت سلیقے اور علمی انداز میں آگے بڑھایا۔ شاہد خان نے بہت خوبصورت کمپیئرنگ کی۔
بکریوں کے ذکر پر مجھے خوشی ہوئی۔ میں بچپن میں بھیڑ بکریاں چراتا رہا ہوں۔ بنیادی طور پر پینڈو اور چرواہا ہوں۔ بکری کا دودھ اور گوشت بہت اعلیٰ غذا سمجھی جاتی ہے۔ آج کل ایوان صدر میں بکریاں اور اونٹنیاں رہتی ہیں کہ صدر زرداری کو یہ گوشت اور دودھ بہت پسند ہے۔ یہ خوراک عام کرنے کے لئے فرحت نے کوشش کی ہے۔ بکریاں پالنا اور چرانا سنت رسول بھی ہے۔ ہم خرما و ہم ثواب ہے۔ ثواب بھی اور سواد بھی۔
0 تبصرے:
اپنا تبصرہ تحریر کریں :-
ضروری بات : غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے ۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔