Share
"اُردو کالمز" بلاگ پر خوش آمدید۔ بلاگ کو زیادہ سہولت کیساتھ ڈائنامک ویو (Dynamic View) میں دیکھنے اور پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں:

Friday, November 2, 2012

انتخابات اور صدارتی انتخاب‘ صدر زرداری کی سیاست


صدر زرداری نے ایوان صدر اسلام آباد میں بیٹھ کر بہت مزے سے حکومت کی اور اتنی سیاسی کامیابیاں حاصل کیں کہ ایسی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے سیاست میں تحمل کا بہترین استعمال کیا ہے۔ ان کی سب سے بڑی کامیابی ”ٹائمنگز“ کا شعور ہے۔ ہر کام کے لئے جو وقت وہ منتخب کرتے ہیں کہ سیاستدان پریشان ہو جاتے ہیں اور لوگ حیران رہ جاتے ہیں۔ دوسرے وزیراعظم کو بچانے کے لئے سوئس بنکوں کو خط لکھنے کا معاملہ اتنی آسانی سے کر لیا کہ کئی لوگوں کو مشکلوں میں ڈال دیا ورنہ گیلانی کو کہا گیا تھا کہ کوئی وزیراعظم یہ خط نہیں لکھے گا۔ نااہل وزیراعظم گیلانی کی پسپائی اور رسوائی دیکھنے والی تھی۔ آصف ہاشمی کو خبر تھی کہ ویسا ہی ہو گا۔ وہ اب تک گیلانی صاحب کے ساتھ ساتھ ہیں۔ صدر زرداری کی سیاست پر بہت لوگ پوری طرح عمل پیرا ہیں۔ اپنے وقت پہ ملک ریاض کو چیف جسٹس سپریم کورٹ کے خلاف میدان میں اتارا گیا اس میدان میں چیف جسٹس افتخار چودھری کے بیٹے ارسلان کو لایا گیا۔ اس حوالے سے چیف جسٹس چودھری نے بھی ”عادلانہ سیاست“ کا کمال دکھا دیا اور گیند صدر زرداری کی کورٹ میں۔ لفظ کورٹ پر غور کریں البتہ ملک ریاض ٹف ٹائم دے سکتا ہے۔ ہماری اپوزیشن والے اور دوسرے سیاستدان چیف جسٹس سے ہی کچھ سیکھتے۔ حسین حقانی کے میمو گیٹ سکینڈل نے جرنیلوں کو پریشان کیا۔ جنرل کیانی نے مارشل لاءنہ لگا کے صدر زرداری کی امیدوں پر پانی پھیر دیا مگر ایک ہلچل تو مچی۔ کہتے ہیں پھر جنرل کیانی کو ایکسٹنشن دینے کی صورتحال بنائی جا رہی ہے۔ جنرل کیانی کا رویہ بہت گہرا اور خاموشی کی طاقت سے بھرا ہوا ہے مگر جہاں بولنا ضروری ہو وہاں خاموش رہنا جرم ہے۔ ایبٹ آباد ڈرامے میں ایک ناکام ہیرو کا کردار جنرل کیانی کو دینے کی کوشش کی گئی۔ جنرل مشتعل نہ ہوئے۔ اب شمالی وزیرستان میں آپریشن کے لئے ملالہ کے ملال کو پھیلا کے جنرل صاحب کو بے حال کرنے کی کوشش جاری ہے۔ وہ زخمی ملالہ کے پاس پہنچے۔ کوئی سیاستدان نہ پہنچا۔ اس کا علاج سی ایم ایچ میں کرا کے ساری منصوبہ بندی بگاڑ دی۔ رحمان ملک نے بہت کوشش کی کہ ملالہ کو بیرون ملک نہ بھیجا جائے۔ اب وہ برمنگھم میں ملالہ کی عیادت کرنے صدر زرداری کی ہدایت پر گئے ہوئے ہیں۔ 
نواز شریف کو صدر زرداری نے اپنی سیاست سے نکلنے نہیں دیا۔ صدر نے ہر کام اپنے وقت پر کیا ورنہ ہماری پرانی عادت ہے کہ ہم قبل از وقت اور بعد از وقت کی مجبوریوں میں پھنسے رہتے ہیں۔ منظور وٹو کو صدر پہلے بھی پنجاب پیپلز پارٹی کا صدر بنا سکتے تھے۔ اب چودھری برادران کو بھی کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ اس سے پہلے چودھری پرویز الٰہی کو ڈپٹی پرائم منسٹر بنا دیا گیا ہے۔ یہ بھی ن لیگ کے لئے ایک سوال ہے کہ وہ بھی مسلم لیگوں کو متحد کر سکتے تھے۔ محترم مجید نظامی کی بات مان کر سرخرو ہو سکتے تھے۔ 
صدر زرداری یہ کام حکومت کے ابتدائی دنوں میں بھی کر سکتے تھے۔ یہ جو سیاست کی نبض پر ان کا ہاتھ ہے اس سے ہاتھ چھڑانا اپنے حریفوں اور حلیفوں دونوں کے لئے مشکل ہے جب بھی صدر زرداری اپنے کسی آدمی کو میدان میں اتارتے ہیں تو لگتا ہے کہ یہی مناسب موقعہ تھا۔ نہ اس سے پہلے نہ اس کے بعد؟ راجہ پرویز اشرف کو پہلے لوڈشیڈنگ میں ناکام کیا گیا پھر رینٹل پاور پلانٹس میں بدنام کیا گیا اور پھر انہیں وزیراعظم لے آیا گیا۔ لوگوں کو تاثر دیا گیا کہ تم اسی کے قابل ہو۔ پہلے گیلانی کے علاوہ کسی دوسرے کو نہ لایا گیا۔ مخدوم امین فہیم کی ہوا نکال دی گئی پھر وہ وزیر شذیر بن گئے تو لوگوں کو پتہ چلا کہ ان کی حیثیت کیا ہے۔ لوگوں نے راجہ پرویز اشرف کے بارے میں بھی یہی سمجھا کہ یہ بھی چلے جائیں گے۔ صرف چودھری شجاعت کو معلوم تھا کہ یہ وزیراعظم رہیں گے۔ اس لئے انہوں نے احمد مختار اور قمر الزمان کائرہ کو وزیراعظم نہ بننے دیا۔ انہوں نے باقی ماضی میں ہمایوں اختر خان کو بھی وزیراعظم بننے نہ دیا۔ جنرل پرویز مشرف نے امپورٹڈ وزیراعظم شوکت عزیز دیا۔ صدر زرداری نے راجہ رینٹل دیا۔ ہور چوپو۔ مگر منظور وٹو کے لئے ابھی صدر نے چودھریوں کی بات نہیں مانی۔ وہ بھی چپ کر گئے ہیں کہ وٹو کی صدارت کی عمر بہت چھوٹی ہے۔ پنجاب کے لئے صدر زردری کو کچھ اور چکر چلانا ہو گا۔ چودھری شجاعت منظور وٹو سے بہت آگے کے سیاستدان ہیں۔ میرے خیال میں پنجاب پیپلز پارٹی کے لئے فیصل آباد کے رانا آفتاب سے زیادہ بہتر آدمی کوئی نہیں مگر صدر زرداری کی سیاست کے لئے اپنے پرائے سب حیران ہیں۔ صدر زرداری چومکھی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ لوگ مکھی مارنے کے لئے توپ چلاتے ہیں صدر زرداری یہ نہیں کرتے مگر ہاتھی صرف غلیل سے مار گراتے ہیں۔ جو بھی ان کا ٹارگٹ ہوتا ہے لگتا یہ ہے کہ وہ ٹارگٹ نہیں ہے۔ نااہل وزیراعظم گیلانی کو آخر وقت تک پتہ نہ چلا کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ وہ نامعلوم ڈھٹائی سے ایوان صدر کے سرونٹ کوارٹر میں منتقل ہو گئے۔ ان کے ملزم بیٹے کو بہت شرمناک طریقے سے گرفتار کیا گیا اور دوسرے وزیراعظم کو صاف بچا لیا گیا۔ اعتزاز کو سنیٹر بنایا گیا مگر کام ان سے سنٹری انسپکٹر کا لیا گیا۔ 
صرف ڈاکٹر بابر اعوان نے ہمت اور جرا¿ت سے کام لیا۔ انہوں نے نااہل اور کرپٹ وزیراعظم گیلانی کے لئے جھوٹی گواہی کے لئے اعتزاز کو انکار کیا۔ صدر زرداری بھی یہی چاہتے تھے مگر تب گیلانی کو اندھیرے بلکہ چکاچوند روشنی میں رکھنے کے لئے ضروری تھا کہ ڈاکٹر بابر اعوان کو ٹارگٹ کیا جاتا۔ تیز روشنی میں بھی کچھ نظر نہیں آتا۔ وزارت اور وکالت تو ڈاکٹر بابر اعوان پہلے ہی شہید بھٹو کے لئے قربان کر چکے تھے۔ اب تو ان کے پاس کچھ تھا ہی نہیں جو اعتزاز چھین لیتے۔ میرا خیال ہے کہ صدر زرداری کو اپنے اس اقدام کے لئے افسوس ہے۔ منظور وٹو کو رانا ثناءاللہ، پرویز رشید اتنی سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔ وہ سلمان تاثیر کے بعد ڈاکٹر بابر اعوان کے لئے طیش میں آتے تھے۔ اب تو وہ عیش کر رہے ہیں۔ سلمان تاثیر اپنی نظریاتی بے وقوفی سے مارے گئے مگر ڈاکٹر بابر اعوان کے لئے سیاسی بے وقوفی کی گئی۔ ڈاکٹر بابر اعوان زندہ ہے۔
یہ بھی ایک سوال ہے کہ الیکشن ابھی ہوں گے کہ نہیں۔ چیف الیکشن کمشنر کے طور جسٹس فخرو بھائی کو قبول کرنا بھی صدر زرداری کی سیاست ہے۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے بار بار کہنا کہ انتخابات جلد ہوں گے مشکوک بات ہے۔ یہ بات بھی زیر بحث ہے کہ صدارتی انتخابات ہوں گے اور پھر انتخابات ہوں گے۔ تین سال کی ایکسٹنشن کیوں نہیں مل سکتی پارلیمنٹ کو ایکسٹنشن کا مطلب حکومت کو ایکسٹنشن ہے۔ یہ ایک ریکارڈ بنے گا کہ پیپلز پارٹی حکومت یعنی صدر زرداری حکومت نے اپنی مدت سے زیادہ مدت تک حکومت کی۔ پنجاب حکومت کو بھی ایک سال مل جائے گا۔ پھر پارلیمنٹیرینز خوشی خوشی صدر زرداری کو دوبارہ منتخب کر لیں گے۔ اس میں فرینڈلی اپوزیشن حسب سابق تعاون کرے گی تو آسانی سے صدارتی انتخابات ہو جائیں گے پھر صدارتی زرداری عام انتخابات کرا دیں گے وقت پر انتخابات ہوں تو بھی انتخابات وہی کرائیں گے۔

0 تبصرے:

اپنا تبصرہ تحریر کریں :-

ضروری بات : غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

Urdu Columns Pk
 
اُردو کالمز | #1 اردو کالمز بلاگ 2011 - 2014