Share
"اُردو کالمز" بلاگ پر خوش آمدید۔ بلاگ کو زیادہ سہولت کیساتھ ڈائنامک ویو (Dynamic View) میں دیکھنے اور پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں:

Tuesday, November 13, 2012

مزار اقبال پر حاضری جہلم میں حضوری


یوم اقبال پر 9 نومبر کو نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی طرف سے برادرم شاہد رشید سے دعوت ملی کہ جناب مجید نظامی کی قیادت میں مزار اقبال پر ہم لوگ حاضری دیتے ہیں۔ آپ بھی ہمارے ساتھ شریک ہوں۔ اس سے پہلے بھی میں یہ سعادت حاصل کرتا رہا ہوں مگر اس یوم اقبال پر بابا عرفان الحق کی طرف سے بھی دعوت تھی کہ آپ لوگ جہلم آئیں۔ میں نے سوچا کہ دور آباد علاقوں میں فکر اقبال اور عشق اقبال کی شمع روشن ہونا چاہئے۔ جہلم میں دینی اور تہذیبی معاملات کو اقبال کے خیالات سے ہم آہنگ کرنے والے دانشور انیق احمد بھی جہلم کے لئے ہمارے ساتھ تھے۔ ہم لوگ صبح سویرے برادرم ظفر اقبال طارق صحرائی نعیم اللہ ٹوانہ اور یاسر بھائی کےساتھ ایک قافلہ¿ اقبال بنا کے لاہور سے روانہ ہوئے۔ 
مزار اقبال میں سارا دن رونق میلہ رہا۔ خواتین و حضرات لڑکے لڑکیاں بچے بڑے جوش و خروش سے موجود رہے۔ مجید نظامی نے بچوں سے کلام اقبال بھی سنا۔ کلام اقبال سے نظریاتی سمر سکول میں باقاعدہ بچوں کو روشناس کرایا جاتا ہے۔ ڈاکٹر رفیق احمد، شاہد رشید، رفاقت ریاض اور دوسرے دوست بہت سرگرم رہتے ہیں۔ مزار اقبال پر پیر کبیر علی شاہ نے بڑے جذبے سے دعا کرائی۔ ان سے کبھی عرض کریں گے کہ ہماری دعائیں کیوں قبول نہیں ہوتیں۔ میری تجویز ہے کہ سیرت رسول کو نصاب کا حصہ بنایا جائے اور اقبالیات کو بھی نصاب میں باقاعدہ شامل کیا جائے۔ 9 نومبر کو تعلیمی اداروں میں چھٹی نہیں ہونا چاہئے۔ فکر اقبال کی تفہیم اور فروغ کے لئے تقریبات ہونا چاہئیں۔ 
مزار اقبال پر گورنر پنجاب سردار لطیف کھوسہ پہلے سے موجود تھے انہیں مجید نظامی کا معلوم ہوا تو وہ ان کے استقبال کے لئے ٹھہر گئے۔ انہوں نے کہا کہ وہ میرے بزرگ اور رہنما ہیں۔ کھوسہ صاحب کی یہ ادائے دلبرانہ اچھی لگی۔ حاکموں کے اندر یہ روایت پکی ہو جائے تو بہت اچھا ماحول بنے گا۔ ہم کھوسہ صاحب کے شکر گزار ہیں۔ شہباز شریف نے بھی حاضری دی۔ انہوں نے کوئی نئی طرز کی اپنی مثال آپ جناح کیپ پہنی ہوئی تھی۔ چودھری پرویز الٰہی نے اپنے دوستوں کے درمیان اقبال کو یاد کیا اور کہا کہ اقبال کے رہنما اصولوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنا کے ہی ہم قائداعظم کا پاکستان بنا سکتے ہیں۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ اس آرزو میں چودھری شجاعت نے مسلم لیگ قائداعظم کا نام اپنی جماعت کے لئے منتخب کیا ہے۔ مجید نظامی کی خواہش کے مطابق مسلم لیگوں کے اتحاد کے لئے بھی کوشش کی جائے۔ قائداعظم کا پاکستان بنانے کے لئے قائداعظم کی مسلم لیگ بنائی جائے۔ ایک بہت بڑی تقریب یوم اقبال کے حوالے سے الحمرا۔ I میں نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی طرف سے ہو رہی ہے۔ جس کی صدارت شہباز شریف کریں گے۔ 
ڈی سی او لاہور بلوچ سردار نورالامین مینگل نے کسی محفل میں کہا کہ اقبال کے تصور خودی نے سر اٹھا کے جینے کا درس دیا ہے۔ یہ اچھی بات ہے مگر وہاں کوئی برادرم ندیم گیلانی سے پوچھ رہا تھا کہ نورالامین اختر مینگل کے کیا لگتے ہیں۔ یہ شعر ندیم گیلانی ڈی سی او نورالامین کو سنائیں 
جھکنے والوں نے رفعتیں پائیں
ہم خودی کو بلند کرتے رہے
لاہور کے علاوہ دوسرے شہروں میں بھی اقبال کو بہت یاد کیا گیا۔ جہلم میں بابا عرفان الحق کے ڈیرے پر سویرے سویرے ہی رونق لگ جاتی ہے۔ سب لوگ مہمان خصوصی تھے۔ برادرم انیق احمد خاص مہمان تھے۔ اقبال اور عشق رسول کے حوالے سے ایک ایسی فضا بنی کہ دل درود شریف پڑھنے لگے۔ بابا جی نے فرمایا کہ سارے عالم اسلام میں پاکستان ایسا خطہ ہے جہاں عشق رسول کا چراغ ہر دل میں روشن ہے۔ اس ملک میں اقبال کو بھیجا گیا ہے۔ غزوہ¿ ہند کے حوالے سے خاص طور پر پاکستان کو ڈیزائن کیا گیا ہے جن حالات میں یہ ملک قائم ہے کوئی اور ملک قائم نہیں رہ سکتا۔ اقبال نے پاکستان میں عشق رسول میں جان کی بازی لگانے کی آرزو والے لوگوں کے لئے کہا تھا 
سبق پھر پڑھ عدالت کا شجاعت کا شہادت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
شہادت ایسی موت ہے جو زندگی سے بھی بڑھ کر ہے۔ عشق رسول کے راستے میں موت کو کیا شاندار معنویت عطا کی گئی ہے۔ دنیا کی امامت پاکستانی مسلمانوں کو ملے گی۔ یہ ابھی ایک راز ہے۔ 
انیق احمد نے کہا کہ دس سال پہلے ایک محفل میں روحانی دانشور اشفاق احمد سے میں نے پوچھا کہ آپ سے ایک دنیا متاثر ہے۔ آپ کس سے متاثر ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ جہلم میں ایک بابا عرفان الحق ہیں۔ انہوں نے مجھے حیران کر دیا اور مجھے محبت سے بھر دیا۔ بابا جی نے فرمایا کہ مجھ سے اشفاق احمد نے پوچھا کہ بچہ ماں کی گود میں پناہ لیتا ہے۔ اللہ کو ستر ماﺅں سے زیادہ محبت انسان سے ہے۔ اللہ کی گود کیا ہے۔ بابا جی نے بتایا کہ اللہ کی گود توبہ ہے۔ توبہ کرتے ہوئے وہ اللہ کی پناہ میں آ جاتا ہے۔ بابا ایک دانشور کے گھر گئے۔ وہاں اس کی ذاتی لائبریری میں ہزاروں کتابیں تھیں۔ بابا جی نے کہا یہ سب مخلوق کی سوچ پر مشتمل کتابیں ہیں یہاں خالق کی کتاب نہیں۔ اس کے بعد دانشور نے مرتے دم تک تلاوت کو اپنا معمول بنا لیا۔ 
بابا جی نے انیق سے اقبال کے حوالے سے خطاب کرنے کو کہا۔ انیق نے بڑے جذبے سے باتیں کیں۔ اقبال کے اشعار بڑے ذوق و شوق سے پڑھے اور ایک سماں باندھ دیا اس نے تنہائی کی گہرائی میں اتر کر اقبال کو پڑھنے کی تجویز دی۔ خلوت نشینی فکر و خیال کی بلندی کے لئے بہت ضروری ہے۔ آقا و مولا حضور نے فرمایا اے خدا مجھے چیزوں کو دکھا جیسی کہ وہ اصل میں ہیں۔ باتوں کے ظاہری اور حقیقی معنوں میں بہت فرق ہے۔ ہم ظواہر میں کھو گئے۔ اصل حقیقت کہیں گم ہو گئی۔ ایک جملہ اس نے بہت گہری معنویت سے کہا ”کوئی شخص سچا عاشق رسول نہیں ہو سکتا۔ جب تک وہ اپنے اندر ایک غار حرا نہیں بنا لیتا“۔ میں اسے اپنا ایک شعر تب نہ سنا سکا تھا
اک عمر سے میں ہجر کے غار حرا میں ہوں
اترا ہے میرے دل پہ وہ الہام کی طرح

0 تبصرے:

اپنا تبصرہ تحریر کریں :-

ضروری بات : غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

Urdu Columns Pk
 
اُردو کالمز | #1 اردو کالمز بلاگ 2011 - 2014