Share
"اُردو کالمز" بلاگ پر خوش آمدید۔ بلاگ کو زیادہ سہولت کیساتھ ڈائنامک ویو (Dynamic View) میں دیکھنے اور پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں:

Friday, October 12, 2012

جنرل کیانی کا روسی دورہ، خوشی اور ملال



جنرل کیانی ملالہ یوسف زئی کی عیادت کے لئے سی ایم ایچ پشاور پہنچے تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ روس کے دورے سے واپس آ گئے ہیں۔ آپ نے سوات کو امریکہ کے پیدا کردہ طالبان سے آزاد کرایا۔ شمالی وزیرستان سوات سے مختلف ہے۔ فوج کو وہاں امتحان میں نہ ڈالیں۔ وہاں وہ لوگ بھی ہیں جو امریکی ڈرون کے لئے راہ ہموار کرتے ہیں۔ روس جانے پر امریکہ آپ سے خفا ہو گا۔ وہ کبھی پاکستان سے خوش نہیں ہو گا۔ یہ طالبان اسلام کے نمائندے نہیں۔ مسلمانوں اور پاکستانیوں کے لئے امریکہ نے ایک فوج بنائی ہوئی ہے۔ صدر زرداری ایوان صدر سے نکلتے ہی نہیں۔ وزیراعظم پرویز اشرف بھی نہ آئے۔ رحمان ملک نے صرف بیان دیتے ہوئے بڑھکیں ماریں۔ علما کو دھمکیاں دیں کہ طالبان سے ڈرتے ہو۔ رحمان ملک سے کون کہے کہ تم ساڑھے چار سال سے کیا کر رہے ہو۔ ہر دہشت گردی کی واردات پر کہتے ہو کہ دہشت گرد نہیں بچ سکیں گے۔ جو دہشت گردی امریکہ پاکستان میں کرا رہا ہے۔ اس کی مذمت نہیں کرتے تو کیا امریکہ سے ڈرتے ہو۔ رحمن ملک کہتے ہیں کہ ملالہ کے حملہ آوروں کی پہچان ہو گئی ہے۔ اس سرکاری جھوٹ پر کوئی اعتبار نہیں کرتا۔ انہوں نے اور ان کے لیڈر صدر زرداری نے بار بار کہا کہ میں بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو جانتا ہوں۔ وہ انہیں جانتے ہیں اور مانتے بھی ہیں۔ اس لئے پانچ سال گزر گئے ہیں۔ پاکستان میں اگر طالبان ہیں تو یہ کس کے بنائے ہوئے ہیں۔ انہیں اسلحہ کہاں سے ملتا ہے۔ افغان لیڈر ملا عمر تو کہہ چکے ہیں کہ دہشت گردی کرنے والوں سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ ایک بات خاص طور پر وزیر داخلہ رحمن ملک سے پوچھنے والی ہے کہ ملالہ یوسف زئی کی سکیورٹی کا بندوبست کیوں نہ کیا گیا۔ کیا اس سے بھی طالبان نے منع کر دیا تھا۔

ملالہ زندہ رہے گی اور ایک دن آئے گا کہ وہ اصل سچ لوگوں کے سامنے بیان کرے گی۔ وہ بہادر ہے روشنی ہے۔ میں اس کے لئے دعا کرتا ہوں اور اُسے سلام کرتا ہوں۔ مگر ملالہ کے لئے ہمدردی کے بہانے پاکستان اور اسلام کو بدنام کرنے والے بتائیں کہ کیا ڈاکٹر عافیہ کے لئے ان کے دل میں ملال کی کوئی ہلکی سی لہر بھی بیدار ہوئی ہے؟ امریکہ کو خوش کرنے کے لئے اعلیٰ و ارفع ڈاکٹر عافیہ کو بھی طالبان کہتے ہیں۔ حامد میر نے میوند کی ملالے اور مینگورہ کی ملالہ کا موازنہ کرتے ہوئے دونوں کی جرا¿توں اور قربانیوں کو خراج پیش کیا ہے۔ میوند کی ملالے کو برطانوی فوج نے مارا اور مینگورہ کی ملالہ پر امریکہ کے کرائے کے فوجیوں نے حملہ کیا ہے۔ برطانوی یہاں سے پسپا ہو کے نکلے امریکی بھی یہاں سے رسوا ہو کے نکلیں گے۔ طالبان کی یہ وارداتیں شرمناک ہیں اور امریکہ بھی یہاں کا ٹھیکہ لے کے نہیں آیا۔ وہ بھی یہاں اپنا ورلڈ آرڈر نافذ کرنا چاہتا ہے۔ طالبان تو یہاں کے ہیں۔ ہم ان سے نبٹ لیں گے۔ امریکہ یہاں کیا کرنے آیا ہے۔ اوبامہ نے اسامہ کے لئے بھی خوشی منائی تھی ملالہ کے لئے اس کی ہمدردی کے پیچھے کیا سازش ہے؟

روس جب تک افغانستان میں تھا تو کوئی طالبان تھا نہ دہشت گردی تھی۔ یہ سب ہنگامہ امریکہ کے آنے پر ہوا ہے۔ شاید روسی صدر پیوٹن کو بھی طالبان نے منع کر دیا ہے؟ کیونکہ اگر اس حوالے سے امریکہ اور بھارت کا نام لیا جائے گا تو امریکی ایجنٹ اور بھارتی پٹھو ناراض ہو جائیں گے۔ اس لئے ہر معاملے میں آسانی سے طالبان کا نام لے لیا جائے تو کچھ کرنا بھی نہیں پڑے گا۔ نہ تفتیش نہ انکوائری۔ بس مذمت کرو صرف مذمت۔ بیان داغو گھر جا کے عیش کرو اور حکومت کے بغیر حکومت کرو۔

روسی صدر پیوٹن سے کون کہے کہ اس کے اقدام سے امریکہ اور بھارت خوش ہوئے ہیں۔ پاکستان کو صدمہ ہوا ہے۔ نقصان بھی ہوا ہے۔ مگر روس کو بھی کم نقصان نہیں ہوا۔ اُسے یہ تو سوچنا چاہئے کہ اس کے مفادات اس خطے میں ہیں۔ سات سمندر پار سے امریکہ وارث بننے کی ڈھٹائی کر رہا ہے۔ ماضی کی تلخیاں بھلا کے کچھ کرنا پڑے گا اور جلدی کرنا پڑے گا۔ پاکستان تو شروع سے امریکہ کا غلام ہے۔ امریکہ کے حکم پر پاکستان نے دھوکہ کھایا۔ مگر بھارت تو روس کا حلیف اور دوست تھا۔ اس نے کیا کیا؟ بھارت نے سوویت یونین (روس) کو برباد ہونے دیا۔ سوویت یونین کی شکست اور شکست و ریخت کے بعد بھارت نے اس سے منہ موڑ لیا اور امریکہ کی گود میں جا کے بیٹھ گیا۔ دانشور اور میڈیا پہلے روس کے ساتھ تھے اب امریکہ کے ساتھ ہیں۔ افغانستان میں امریکہ کی پاکستان دشمن کارروائیوں کے بعد پاکستان کو کچھ ہوش آیا ہے اور وہ روس کی طرف گیا ہے۔ چین کو بھی سنجیدگی کے ساتھ سوچنا ہو گا۔ روس کو بھارت کے دھوکے میں نہیں آنا چاہئے۔ بھارت کے پیچھے صرف امریکہ ہے۔

صدر، زرداری روس گئے اور یہ ایک بہت بڑی معرکہ آرائی ہے۔ پہلے امریکہ نے ہمیں اس بات سے ڈرایا تھا کہ روس گرم پانیوں تک گوادر میں آنا چاہتا ہے روس تو نہ آیا۔ اب امریکہ وہاں موجود ہے۔ جبکہ گوادر پورٹ چین نے بنائی ہے۔ چین اور روس بھی امریکی دھاندلی قبول نہیں کریں گے۔ وہ بلوچستان میں گڑبڑ کرا کے خطے کو اپنے قابو میں کرنا چاہتا ہے تو جنگ عظیم کے لئے بھی تیار رہے۔ بلوچستان سے فوج نکل جائے مگر شمالی وزیرستان میں آپریشن کرے۔ کیا کراچی میں آپریشن کی ضرورت نہیں۔ امریکہ خود وہاں گڑبڑ کرا رہا ہے۔

صدر زرداری نے روس کو گرم پانیوں تک اب آنے کی خود دعوت دی ہے۔ یہ دعوت اسے فوراً قبول کر لینا چاہئے۔ میرے خیال میں مشرقی بلاک بنے گا تو مغربی اور امریکی بلاک کی عقل ٹھکانے لگے گی۔ امریکہ اسلامی بلاک سے بھی ڈرتا ہے۔ افغانستان کے بعد پاکستان کو نشانہ بنانے میں یہ راز پنہاں ہے۔ مشرقی بلاک مغربی بلاک کے مقابلے میں اشد ضروری ہے۔ اس بلاک میں افغانستان بھی شامل ہو گا۔ وہ کبھی امریکی خواہش کے مطابق بھارت کی نگرانی میں نہیں جائے گا۔ اس خطے میں بھارت اکیلا رہ جائے گا۔ اسے چین کے مقابلے میں آنے اور پاکستان کو کمزور کرنے کی روش چھوڑنا ہو گی۔ پاکستان اور چین کے ساتھ اپنے تنازعات حل کرنا ہونگے۔ پاکستان کے ساتھ تجارت اس کے حلق میں ہڈی کی طرح پھنس جائے گی۔

روسی صدر پیوٹن کے پاکستان میں فی الحال نہ آنے کو اتنا محسوس نہیں کیا گیا۔ ہمارے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے سوویت یونین (روس) کی دعوت قبول کرنے کے بعد ٹھکرائی اور امریکہ چلے گئے اور اب یہ ثابت ہوا ہے کہ یہ کتنی بڑی غلطی تھی جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ میں جنرل کیانی کو مبارکباد دیتا ہوں کہ وہ کسی سیاسی انا کا شکار ہونے کی بجائے روس جانے کے ارادے پر ڈٹے رہے۔ سیاستدان یہ جرا¿ت نہ کرتا۔ پاکستانی آرمی چیف کے روس جانے پر امریکہ اور بھارت میں کھلبلی مچ گئی ہے۔ وہاں بہت استقامت اور پاکستان سے ناقابل تسخیر محبت کے ساتھ جنرل کیانی نے مذاکرات کئے ہونگے۔ اس میں سیاسی مصلحتیں ہونگی۔ آجکل سیاسی قیادت اور عسکری قیادت مل کر پالیسی بناتی ہیں۔ صدر زرداری کے دورے کے بعد جنرل کیانی کا دورہ ایک نیا زمانہ لے کے آئے گا۔ امریکہ کو جب چین اور روس کی طرف سے واضح پیغام ملے گا تو اسے سوچنا پڑے گا۔ افغانستان سے روس کو امریکہ نے نکلوایا۔ اب روس کو بھی کوئی کردار ادا کرنا پڑے گا۔

اس طرح دہشت گردی سے بھی پاکستان کی جان چھوٹ جائے گی۔ ملالہ پر بزدلانہ حملے سے میں ملال سے بھرا ہوا ہوں۔ ملال غم کے جمال کی اعلیٰ شکل ہے۔ اس میں غم کی طاقت اور خوبصورتی بھی ہے۔ اللہ ملالہ کو ملال کے سارے جمال اور کمال سے مالامال کر دے۔ ملالہ پر حملے کا تعلق جنرل کیانی کے روسی دورے سے بھی ہے۔ کون اس پر غور کرے گا۔

0 تبصرے:

اپنا تبصرہ تحریر کریں :-

ضروری بات : غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

Urdu Columns Pk
 
اُردو کالمز | #1 اردو کالمز بلاگ 2011 - 2014