Share
"اُردو کالمز" بلاگ پر خوش آمدید۔ بلاگ کو زیادہ سہولت کیساتھ ڈائنامک ویو (Dynamic View) میں دیکھنے اور پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں:

Tuesday, October 9, 2012

رضیہ بٹ.... ایک عہد کا نام....!!


ٹھیک طرح سے یاد نہیں غالباً ان دنوں میں میٹرک کا امتحان دے کر گھر بیٹھی تھی۔ کتابیں پڑھنے کا چسکا لگا تھا۔ اباجی کی بڑی لائبریری تھی۔ اور امی جان ناول منگوا کر پڑھا کرتی تھیں۔ ان دنوں میں نے محترمہ رضیہ بٹ صاحبہ کا ناول ناہید پڑھا تھا جب کالج میں گئی تو انکے ناولوں کی دھوم مچی تھی جو بھی نیا ناول آتا فوراً بک جاتا۔ لڑکیاں بڑے جوش اور جذبے سے ان کے ناولوں پر تبصرہ کرتی تھیں۔ 

ایک عرصہ تک میں بھی ان کے ناول پڑھتی رہی۔ ان سے پہلے دنیائے ادب میں محترمہ حجاب امتیاز علی اور ان کے بعد اے آر خاتون اور زبیدہ خاتون نے دھوم مچائے رکھی۔ حجاب امتیاز علی ایک منفرد ماحول اور فلسفہ کی علمبردار تھیں۔ اور اے آر خاتون بڑے دلآویز گھمبیر مسلم ثقافت سے مزین خانگی اور سماجی معاملات کو اپنے ناولوں کے ذریعے متعارف کراتی تھیں.... 

پاکستان بننے کے بعد جو معاشرہ تشکیل پایا۔ اور جس قسم کے خانگی و عائلی مسائل ابھر کر سامنے آئے ان کو رضیہ بٹ صاحبہ نے بہت سلیقے سے اپنے ناولوں میں سمو کر نئی نسلوں تک منتقل کرنا شروع کر دیا اور دیکھتے دیکھتے رضیہ بٹ صاحبہ کے ناول بیسٹ سیلر ہو گئے۔ اور پبلشرز ان کے دروازے کے چکر کاٹنے لگے.... 

کیا ناول لکھنا آسان ہے؟ اس کے لئے انسانی فطرت کا نفسیاتی مشاہدہ.... اور لیل و نہار کی صورت میں سامنے رکھی کتاب زندگی کا گہرا مطالعہ بہت ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تحریر میں دلکشی، محاوروں پر دسترس اور اصطلاحات میں نیرنگی کا ہونا بھی ضروری ہے.... 

بعض لوگ آرام سے پھبتی کس دیتے ہیں۔ ہاں بھئی عورتوں کو ناول لکھنے کے علاوہ کوئی کام نہیں ہوتا.... اس لئے ناول پہ ناول لکھے جاتی ہیں۔ گھر ایک سلطنت کی طرح ہوتا ہے۔ روزانہ نون مرچ مصالحے کا حساب ذہن کو تھکا دینے کے لئے کافی ہے.... اور پھر بچے کی غور و پرداخت.... یہ دنیا کا مشکل ترین کام ہے.... یہ قلمی تخلیق سے زیادہ اعصاب شکن ہو سکتا ہے۔ مگر یہ کام تو بس ماں ہی کر سکتی ہے۔ ایک بچہ ہو یا پانچ ہوں۔ پوری خدمت گزاری کرتی ہے۔ اپنے سارے رشتے بھی نبھاتی ہے۔ اور پھر شوق کی شمع جلا کے لکھنے بیٹھ جاتی ہے.... 

ہمارے ہاں خود ساختہ دانشوروں نے عورتوں کے لکھے ہوئے ادب کو پاپولر ادب کا نام دیا۔ آج یورپ اور امریکہ میں بعد از بسیار تجربات پھر سے پاپولر کیانی اور پاپولر ناول لکھنے کا رواج عام ہو رہا ہے۔ وہاں ناول نے اپنی ہیئت بدل لی ہے۔ پوپ کیانی ہر بات چل رہی ہے۔ پاکستان میں ابھی تک زنانہ اور مردانہ ڈبوں پر بات ہو رہی ہے.... 

کمال کی بات یہ ہے کہ جو سیاسی لیڈر پاپولر ہو جاتا ہے۔ وہ وزیراعظم بن جاتا ہے۔ جو کھلاڑی پاپولر کھلاڑی بن کے ابھرتا ہے وہ مین آف دی میچ کہلاتا ہے۔ اونچی مسند عطا کی جاتی ہے۔ جو شاعر پاپولر ہو جاتا ہے.... وہ ہر خاص و عام کی زبان پر چڑھ کے بڑا شاعر بن جاتا ہے۔ جو موسیقار یا گائیک پاپولر ہو جاتا ہے۔ وہ صدی کا بڑا گائیک بن جاتا ہے۔ جو کالم نگار پاپولر ہو جاتا ہے۔ وہ بڑا کالم نگار مانا جاتا ہے۔ اور جب کوئی خاتون ادب کی دنیا میں ہر دلعزیز ہو جاتی ہے۔ لوگ دیوانہ وار اسکی کتابیں پڑھنے لگتے ہیں۔ تو پاپولر کا لفظ اس کے لئے طعنہ کیوں بن جاتا ہے.... اسے بڑی ادیب کیوں نہیں کہا جاتا ہے....“ ہر دلعزیز شاعر یا ادیب کو اپنا ایک زمانہ ملتا ہے۔ وہ دس سال پر محیط ہو یا بیس سال پر.... وہ لوگوں کے دلوں پر راج کرتا ہے۔ محفلوں میں اس کا ذکر آتا ہے۔ اسکی کتابیں دھڑا دھڑ بکتی ہیں.... 

میں یہاں ہرچند بڑے اور پاپولر ادیبوں کی مثالیں دونگی۔ منشی پریم چند (1936.... 1880) خواجہ حسن نظامی، کرشن چندر، سعادت حسن منٹو.... اور بہت سے لوگ ادبی تاریخ جن کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ وہ سب پاپولر بھی تھے۔ اور ہر خاص و عام کے مسائل تک پہنچتے بھی تھے۔ 

اس لئے میں رضیہ بٹ صاحبہ کو پاکستان کی بہت بڑی ادیبہ سمجھتی ہوں۔ جنہوں نے نوجوان نسل کو صاف ستھرا اور انسانی رشتوں اور رابطوں میں گندھا ہوا ادب مہیا کیا۔ اور تسلسل کے ساتھ لکھتی رہیں.... تین چار سو افسانے لکھے ستر کے قریب ناول لکھے۔ اپنی خود نوشت بھی لکھی.... 

یہ بہت بڑا کام ہے۔ ان کے کئی ناولوں پر فلمیں بھی بنیں۔ انہوں نے تحریک پاکستان کے پس منظر میں بھی ناول لکھا۔ ان کو محفل آرائی کا شوق نہیں تھا۔ نہ خودنمائی میں مبتلا تھیں۔ اور نہ ہی مہمان خصوصی کی صورت میں محفل محفل نظر آتی تھیں۔ ان کی طبیعت میں ایک پرسکون سی بے نیازی تھی۔ ان کا مشن حرف لکھنا تھا۔ وہ حرفوں کی اجارہ دار تھیں۔ وہ ہر موضوع پر لکھتی رہتی تھیں۔ ناولوں کے ناموں میں انہوں نے جدت پیدا کی۔ بہت سے لوگ ان کے ناولوں کے ناموں پہ اپنی بیٹیوں کے نام رکھنے لگے تھے۔ 

وہ اپنی کتابوں کی رونمائی بھی نہیں کرواتی تھیں.... کوئی دس پندرہ سال پہلے انہوں نے ایک ادبی تقریب اپنے گھر میں رکھی تھی۔ اور مجھے بھی بہت پیار سے بلایا تھا۔ میں ان کی بیٹیوں سے بھی ملی تھی.... جو ساری کی ساری بہت ہی شائستہ اور ملنسار ہیں۔ 

محترمہ رضیہ بٹ صاحب: خود بھی سادگی پسند، خلوت پسند اور خاموش طبع تھیں۔ اگر مسلسل قلم بولتا ہو تو بندہ خاموش رہنے میں عافیت سمجھتا ہے.... 

میں اسلام آباد میں تھی۔ جب میں نے ان کی فوتیدگی کی خبر سنی.... دل کو عجب دکھ سا ہوا.... مجھے نہیں معلوم کسی چینل نے ان کی تخلیقات کے حوالے سے کوئی پروگرام کیا ہے یا نہیں.... یہاں تو چھوٹے چھوٹے لوگ، بڑے بڑے چہرے دکھانے آ جاتے ہیں۔ لیکن اردو ادب پر محترمہ رضیہ بٹ صاحبہ کا ہمیشہ احسان رہے گا۔ انہوں نے اس نسل کے لئے لکھا جو کسی راستے کی تلاش میں ہوتی ہے.... اگر روشنی کا اشارہ نہ ملے تو اندھیروں کی سمت مڑ جاتی ہے۔ میرا اشارہ نوجوان نسل کی طرف ہے جس کو ہر دور میں صحت مند صاف ستھرا اور رہنمائی کرنے والا لٹریچر درکار ہوتا ہے۔ وگرنہ جو کچھ آج کی دنیا میں ہو رہا ہے۔ وہ رونگھٹے کھڑے کرنے کو کافی ہے۔ 

بلاشبہ رضیہ بٹ صاحبہ کو ہمیشہ بڑے ناول نگاروں میں شمار کیا جاتا رہے گا۔ 

چہرہ تراشی کھیل نہیں ہے ہاتھ لہو ہو جاتے ہیں 

آج جتنے بھی پرائیویٹ چینل ہیں۔ وہ خواتین ادیبوں کے لکھے ہوئے ڈرامے پیش کر رہے ہیں۔ کیونکہ عورتیں زمینی حقائق اور انسانی رشتوں کو بنیاد بنا کر لکھتی ہیں۔ لکھا ہوا لفظ محترم ہوتا ہے۔ اور جو اہل قلم اپنے خیالات اور دوسروں کے محسوسات احاطہ¿ تحریر میں لا سکتا ہے۔ وہ بلاشبہ ادیب ہوتا ہے اور وقت کا نقیب ہوتا ہے۔ 

اللہ کے بندوں کی دلجمعی اور رہنمائی کے لئے۔ اور نیک و بد کا شعور بخشنے کے لئے لکھتے رہنا کردار سازی کے زمرے میں آتا ہے۔ کردار سازی اور تربیت سازی، تزکیہ سازی ہوتی ہے یہ نیکی کی ایک قسم ہے۔ میری دعا ہے باری تعالیٰ محترمہ رضیہ بٹ صاحبہ کو اپنے مقربین میں جگہ عطا فرمائے۔ ان پہ اپنا کرم فرمائے آمین اور ان کے پسماندگان کو صبر اور اجر عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔ 

جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں 

کہیں سے آب بقائے دوام لا ساقی!

0 تبصرے:

اپنا تبصرہ تحریر کریں :-

ضروری بات : غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

Urdu Columns Pk
 
اُردو کالمز | #1 اردو کالمز بلاگ 2011 - 2014