Share
"اُردو کالمز" بلاگ پر خوش آمدید۔ بلاگ کو زیادہ سہولت کیساتھ ڈائنامک ویو (Dynamic View) میں دیکھنے اور پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں:

Thursday, October 11, 2012

عمران خان کیلئے جنرل ٹائیگر نیازی کا طعنہ



مسلم لیگ ن کے مشاہد اللہ خان کو عمران پر غصہ جھاڑتے ہوئے ٹائیگر نیازی یاد آئے ہیں۔ اسلئے ظاہر ہے کہ یہ لوگ بوکھلا گئے ہیں۔ ٹائیگر مسلم لیگ ن کا انتخابی نشان بھی ہے۔ جلسوں میں ”شیر آیا“ کے نعرے مشاہد نے بھی لگائے ہوں گے۔ عمران خان کے حوالے سے نوازشریف کے ساتھیوں کی نیندیں حرام ہو گئی ہیں۔ مجھے بھی کئی معاملوں میں عمران خان سے اختلاف ہے اور میں اس کا اظہار کھلم کھلا کرتا رہتا ہوں۔ وہ مجھ سے ناراض رہتے ہیں۔ تحریک انصاف کے کئی لوگ میرے خلاف ہیں۔ اب تو حفیظ اللہ نیازی بھی بہت ناراض ہے جبکہ میں اسے پسند کرتا ہوں۔ میں امن مارچ کیلئے دو کالموں میں عمران خان کیلئے تنقیدی باتیں کر چکا ہوں۔ مگر اختلاف کرنے کا حق اس کو ہے جو اعتراف کرنا بھی جانتا ہو۔ اور مجھے کئی حوالوں سے عمران خان کا اعتراف بھی ہے۔ مجھے اس کی پرواہ نہیں کہ میرے اعتراف اور اختلاف پر اس کا ردعمل کیا ہے۔ میں تو چاہتا ہوں کہ ردعمل ردی عمل نہیں بننا چاہئے۔ مشاہد کی یہ بات ردی کی ٹوکری میں پھینکنے والی ہے۔ میرے دل میں ذاتی طور پر مشاہد اللہ خان کیلئے بھی ایک تعلق کی کیفیت ہے مگر وہ ٹی وی چینل پر بھی لڑاکی اور جھگڑالو عورتوں کی طرح باتیں کرتے ہیں اور دوسروں کو نیچا دکھانے میں رہتے ہیں۔ مخالفین کیلئے بھی بات ایک وقار اور اعتبار سے کرنا چاہئے۔ 

مشاہد اللہ خان نے دلیل سے بات کرنے کی بجائے صرف تنقیدی بات کی ہے۔ اس طرح تمام میانوالی کے لوگوں اور خاص طور پر نیازیوں کا دل دکھایا گیا ہے۔ عام لوگوں نے بھی اس طرز اظہار کو اچھا نہیں سمجھا۔ مشرقی پاکستان میں ذلت آمیز شکست ایک عالمی سازش تھی۔ جس میں پاکستان کے سیاستدان جرنیل اور دانشور اور صحافی بھی شامل تھے۔ میں نہیں سمجھتا کہ اس کا تنہا ذمہ دار ٹائیگر نیازی ہے۔ اسے ٹائیگر نیازی کا خطاب انگریزوں نے دیا تھا۔ مشرقی پاکستان سے جنرل ٹکا خان بھی واپس آ گیا تھا۔ میرا خیال ہے کہ اسے بے دھیانے میں مروایا گیا۔ سیاستدان تب ایسی ہی باتیں کر رہے تھے جو آج کل اختر مینگل کے چھ نکات پر نوازشریف اور دوسرے سیاستدان کر رہے ہیں۔ میں نے جنرل نیازی سے کہا تھا کہ آپ ہتھیار نہ ڈالتے اور خودکشی کر لیتے۔ میں اس طرح کی خودکشی کو شہادت کہتا۔ ہم پوری تاریخ کے سامنے رسوا تو نہ ہوتے۔ اس نے سرنڈر کیا مگر اب لوگ بلنڈر کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ مشاہد اللہ خان دلیر آدمی ہیں۔ وہ دیدہ دلیر تو نہ بنیں۔ کبھی ان لوگوں نے مشرقی پاکستان کو یاد نہیں کیا۔ صرف عمران خان بڑھکیں نہیں مارتا۔ بڑھکیں تو خود مشاہد اللہ خان اور ان کے لیڈر بھی مارتے ہیں۔ آج کل بڑھکیں اور بیانات ایک جیسے ہو گئے ہیں۔ عمران نے مولانا کو منافق کہا۔ ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔ عمران نے بات زرداری اور مولانا کے خلاف کی ہے۔ نوازشریف کے ساتھیوں کو کیا تکلیف ہو گئی ہے۔ 

برادرم مشاہد اللہ خان کو احساس نہیں کہ عمران تو اپنے نام کے ساتھ کبھی نیازی لکھتا ہی نہیں۔ وہ تو ان کی طرح خان ہے۔ اچھا نہیں کہ ہم مشاہد اللہ خان کو خان ہونے کی حیثیت سے وکیل کریں۔ 

شاید مشاہد اللہ خان مولانا عبدالستار خان نیازی کو نہیں جانتے۔ وہ سیاست میں دیانت دلیری قناعت ثابت قدمی اور قائداعظم کے پاکستان کی نمائندگی کی مثال تھے۔ قائداعظم کے سپاہی تھے۔ مشاہد اللہ خان کو بھول گیا ہے کہ وہ نوازشریف کی کابینہ میں تھے اور یہ بات ان کیلئے ایک اعزاز ہے۔ ان کی کابینا¶ں میں کوئی ان کے دھول جیسا بھی نہ تھا۔ مشاہد مولانا نیازی کی مثال کیوں نہیں دیتے کہ عمران ایسا پاکستان بنانے کی کوشش کرے جو مولانا نیازی کی آرزو¶ں اور ارادوں میں بستا تھا۔ یہ بھی ایک سوال ہے کہ کیا عمران خان ایسے پاکستان میں رہنا پسند کریں گے۔ وہ کہتے تو ہیں کہ علامہ اقبال میرا مرشد ہے۔ وہ اپنی سیاست اچھے خطوط پر چلائیں۔ اپنے ساتھیوں کو اور اپنے آپ کو منع کریں کہ الزام کی سیاست چھوڑ دو۔ وہ دوسروں پر الزام لگانا ہے تو ان پر بھی الزام لگیں گے۔ وہ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیا وہ دوسرے سیاستدانوں سے مختلف سیاست کر رہے ہیں؟ ان کے ساتھی بھی دوسروں کی طرح لڑتے جھگڑتے ہیں۔ بھارت اور امریکہ کیلئے صدر زرداری نوازشریف عمران خان مولانا فضل الرحمن اسفندیار ولی خان اور سارے سیاستدان ایک ہیں۔ بھارت نے امریکہ کی سرپرستی میں فوجی مداخلت سے مشرقی پاکستان توڑا۔ اب سب بھارت کی دوستی پر متفق ہیں۔ کسی سیاستدان میں دوسرے سے مختلف کیا ہے؟ 

عمران خان کے حوالے سے ایک ہی سیاسی دانشور کی اختلافی بات اچھی لگی اور وہ پرویز رشید ہے۔ وہ بھی کبھی کبھی پھسل جاتے ہیں مگر انہیں مشاہد اللہ خان اور رانا ثنا اللہ سے تشبیہہ نہیں دی جا سکتی۔ انہوں نے کہا عمران خان کے امن مارچ کو دو حوالوں سے پرکھا جا سکتا ہے۔ تصویر اور تقریر۔ تقریر کرتے وقت عمران خان کے ساتھ شمالی وزیرستان کا ایک آدمی نہ تھا۔ جو ڈرون حملوں سے متاثر ہوا ہو۔ نہ ماں نہ باپ جس کے بچے ڈرون حملوں میں مارے گئے ہوں۔ ان کی دلجوئی کیلئے عمران خان نے یہ ڈرامہ اور ہنگامہ کیا تھا۔ شاہ محمود قریشی عالمی میڈیا میں امن مارچ کے زور شور کا ذکر کر رہے تھے۔ ورنہ یہاں دوسرے سیاستدان بھی آئے۔ کسی کو کسی قابل نہ سمجھا گیا۔ مغربی امریکی میڈیا پر یہودیوں کا قبضہ ہے۔ یہودیوں کا ایجنٹ عمران خان کو مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے۔ جب جمائما سے شادی کے دنوں میں شور و غوغا ہوا تھا تو میں نے عمران خان کی حمایت میں لکھا تھا۔ جمائما نے بھی اپنے آپ کو پاکستان کی بہو سمجھا تھا۔ نجانے عمران نے کس مقصد کیلئے اس کو طلاق دی۔ میں نے عمران خان کو اس کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔ مگر جمائما اب عمران سے ناراض نہیں دونوں ایک دوسرے سے ملتے جلتے رہتے ہیں۔ 

پرویز رشید نے مغربی اخبار ”گارڈین“ کے حوالے سے بتایا کہ تقریر کے دوران عمران خان کے ساتھ وہ لوگ کھڑے تھے جو تحریک انصاف کے ٹکٹ کے خواہاں ہیں۔ تو کیا یہ ایک سیاسی انتخابی جلسہ نہ تھا۔ تقریر میں عمران خان نے اپنے سیاسی مخالفین کو رگڑا دیا جبکہ وہ بھی ڈرون حملوں کے خلاف ہیں۔ امریکہ کے خلاف کم بات ہوئی۔ عمران کو معلوم ہے کہ ڈرون افغانستان اور پاکستان سے آتے ہیں۔ یہ بات بھی زیربحث رہی کہ امن مارچ کے دوران ڈرون حملہ نہیں ہوا۔ عمران شاہ محمود قریشی کو آواز دیتے رہے کہ تم کہاں ہو۔ شاہ محمود قریشی کو دیکھ کر مشاہد اللہ خان کو ان کے والد سجاد قریشی یاد نہ آئے جو جنرل ضیا کے گورنر پنجاب تھے۔ پھر انہیں نوازشریف بھی یاد آتے کہ تب وہ جنرل ضیا کے وزیراعلیٰ پنجاب تھے۔

0 تبصرے:

اپنا تبصرہ تحریر کریں :-

ضروری بات : غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

Urdu Columns Pk
 
اُردو کالمز | #1 اردو کالمز بلاگ 2011 - 2014