Share
"اُردو کالمز" بلاگ پر خوش آمدید۔ بلاگ کو زیادہ سہولت کیساتھ ڈائنامک ویو (Dynamic View) میں دیکھنے اور پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں:

Saturday, November 17, 2012

صادق اور امین


رحمان ملک کا طبی معائنہ پمز ہسپتال میں دیر تک ہوتا رہا۔ اسکے بعد ڈاکٹروں نے رحمان ملک کو ہدایت کی کہ وہ کم بولا کریں۔ ہم پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہیں۔ ہم کئی بار میڈیکل چیک اپ کے بغیر ملک صاحب سے گزارش کرچکے ہیں کہ وہ کم بولا کریں۔ کم سے کم بہت ہی کم بلکہ بولا ہی نہ کریں۔ وہ بار بار ایک ہی بات بولتے جا رہے ہیں۔ اب انکی باتیں لوگوں کو زبانی بلکہ منہ زبانی یاد ہوگئی ہیں۔ ہم گورنمنٹ کالج لاہورکے بعد پنجاب یونیورسٹی میں تھے۔ ایک دوست بہت بولتا تھا۔ وہ بھی ملک صاحب تھا، نام اسکا بھول گیا ہے۔ رحمن ملک کا نام بھی بھول جائیگا۔ اب تو اسکی باتیں میڈیا پر ہر روز آتی ہیں، پھر انکا نام لینے والا کوئی نہ ہوگا۔ یونیورسٹی والے ملک صاحب نے الیکشن لڑا۔ اس سے ایک خاتون نے کہا کہ تم کم بولا کرو تو میں تمہیں ووٹ دوں گی۔ اسکے باوجود رحمان ملک بولتے رہے، ہمارے ہاں ووٹ اسی کو ملتے ہیں جو اوٹ پٹانگ بولتا رہتا ہے۔ تب ایک شعر ہوگیا تھا، الیکشن کے دنوں میں اشعار مل کر لکھے جاتے ہیں۔ اس شعر کے بعد ملک صاحب نے اور زیادہ بولنا شروع کردیا تھا۔ وہ زیادہ بولتے تھے ”اور زیادہ“ کیا ہوتا ہے۔ محاورہ ہے کہ پہلے بات کو تولو پھر منہ سے بولو
پہلے بال کو تول اوئے ملکیا
پھر بھی نہ منہ سے بول اوئے ملکیا
٭٭٭٭٭٭
سابق وزیر پیر سید حامد سعید کاظمی اب زیادہ مقبول ہورہے ہیں۔ پیر کبھی سابق نہیں ہوتا مگر مخدوم سید حامد سعید کاظمی کی رسوائیوں میں کمی نہیں ہورہی۔ حج کرپشن کے علاوہ بھی کئی ”کرپشنوں“ کی کہانیاں سامنے آرہی ہیں۔ نااہل اور کرپٹ وزیراعظم گیلانی نے اپنے بیٹے کو بچانے کیلئے کاظمی صاحب کو جیل بھجوا دیا۔ وہ بڑے وقار اور اعتبار والے آدمی ہیں۔ بڑے صبر اور توکل سے انہوں نے جیل کاٹی اور زیادہ سرخرو ٹھہرے ورنہ جس طرح ایوان صدر کے سائے میں سپریم کورٹ کے دروازے پر چھوٹے گیلانی صاحب کو گرفتار کیا گیا، وہ عبرتناک ہے اور شرمناک بھی ہے۔ چھوٹے سے بڑے عبدالقادر گیلانی نے کہا کہ ایجنسیاں اور ادارے ہمارے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ ہمیں شیخ رشید اور دوسرے ”ایم بی بی ایس“ کہتے ہیں، میاں بیوی بچوں سمیت، ہم دونوں بھائی قومی اسمبلی سے استعفیٰ دیدیں گے۔ سرکاری اور سیاسی ”گیلانیوں“ میں استعفیٰ دینے کی روایت نہیں ہے۔ جس طرح بڑے گیلانی صاحب کو وزیراعظم ہاﺅس اور قومی اسمبلی سے نکالا گیا۔ اسے بھی ”قربانی والا استعفیٰ“ کہتے ہیں تو ”گیلانی برادرز“ کا استعفیٰ ہونیوالا ہے۔ آپ مکافات عمل دیکھیں کہ کاظمی صاحب کیلئے محبت کے جذبات کا اظہار ہورہا ہے اور یوسف رضا گیلانی اپنے بیوی بچوں سمیت بے یارومددگار پھرتا ہے اور کوئی اس کو توجہ کے قابل بھی نہیں سمجھتا۔ عزیزم جاوید اکبر ساقی نے برادرم اختر رسول کے گھر حامد سعید کاظمی کے ساتھ کچھ دوستوں کی ملاقات کرائی۔ جاوید اکبر ساقی مجھے بہت عزیز ہے کہ اس نے اپنے معروف لیڈر باپ کے ارادوں اور آرزوﺅں کی لاج رکھی ہے۔ وہ اپنے والد کا ہمشکل ہے اور ان کا ہمراز بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان کے دوستوں کی عزت کرتا ہے اس کے لئے کوئی مثال نہیں۔ اختر رسول سیاست سے پہلے ہاکی کے حوالے سے قومی ہیرو ہے۔ بزرگوں کے ساتھ اس کی وابستگی اسے محترم بناتی ہے۔ پیر اعجاز ہاشمی، پیر طاہر سجاد کاظمی زنجانی، پیر غلام قطب الدین فریی کی موجودگی پیر حامد سعید کاظمی کی حق پرستی ثابت قدمی صبر و استغنا کی گواہی تھی۔ استغنا بہرحال انا سے بہت بڑی کیفیت ہے۔ رانا اکرام ربانی بھی تھے۔ وہ میرے کلاس فیلو ہیں۔ وہ پیپلز پارٹی سے مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوئے ہیں۔ ہم ان کےلئے دعاگو ہیں۔ ان کے بھائی رانا احتشام ربانی ہمارے دوست ہیں پہلے اکرام مگر اب ان سے بھی دوستی احتشام سے زیادہ ہے۔ اس میں دانشور دوست فرخ سہیل گوئندی کی رفاقت کا بھی دخل ہے۔ احتشام ربانی کالم لکھتے ہیں مگر شائع نہیں کرواتے۔ اسے فوٹو سٹیٹ کرا کے عام لوگوں میں تقسیم کر دیتے ہیں۔ وہ بہت صاحب اسلوب شخصیت ہیں۔ فرخ سہیل گوئندی کی بیش بہا کتابوں میں رانا صاحب کی کتاب ایک اچھا اضافہ ہے۔ 
کاظمی صاحب کے لئے گفتگو میں جاوید اکبر ساقی نے ان کے والد علامہ سید احمد سعید کاظمی کو یاد کیا۔ جنہیں غزالی¿ زماں کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ حامد سعید کاظمی نے اپنے صبر و رضا سے الزامات اور انعامات میں فرق مٹا دیا۔ مجھے ایک انقلابی صوفی شاعر یاد آ رہا ہے
یہ ہمی تھے جن کے لباس پر سرراہ سیاہی لکھی گئی
یہی داغ تھے جو سجا کے ہم سر کوئے یار چلے گئے
٭٭٭٭٭
ہمارے دوست فرحت اللہ بابر نے عجب بات کی ہے۔ وہ ایوان صدر کے ترجمان ہیں۔ ہمارے سیاسی ترجمانوں کو دل کی ترجمانی کرنا نہیں آتا۔ ہمیں اب معلوم ہوا ہے کہ انہیں سینیٹر کیوں بنایا گیا ہے۔ انہیں رحمان ملک کی سینیٹری بہت عزیز ہے۔ اعتزاز احسن کی سینیٹری فرحت اللہ بابر کو بھی پسند نہیں۔ اس طرح لوگ سینیٹر کو سینٹری انسپکٹر سمجھنے لگے ہیں۔ مگر ایک بات ہمیں اعتزاز کی اچھی لگتی ہے کہ ان کی وکالت گیلانی صاحب کی وزارت کے خاتمے کا سبب بنی ہے۔ اسی لئے انہیں راجہ پرویز اشرف کا وکیل نہیں بنایا گیا۔ 
سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ رحمن ملک صادق اور امین نہیں ہیں۔ صادق اور امین تو نااہل وزیراعظم گیلانی بھی نہ تھے۔ اسمبلی میں شاید ہی کوئی ممبر صادق اور امین ہو۔ آئین کی رُو سے کوئی صادق اور امین نہ ہو تو وہ اسمبلی کا ممبر ہونے کا مستحق نہیں رہتا۔ اب فرحت اللہ بابر نے مطالبہ کر دیا ہے کہ آئین میں سے صادق اور امین کا تحفظ نکال دیا جائے، نہ رہے بانس نہ بجے بانسری پھر بھی نیرو بانسری بجا رہا ہے اور روم (پاکستان) جل رہا ہے۔ امین اور صادق کا لفظ آئین میں موجود ہے تو بھی اس سے کیا فرق پڑ گیا ہے۔ کئی لوگوں کو یہ بھی تکلیف ہے کہ صادق اور امین کا لقب رسول کریم کے لئے خاص ہے۔ 
....٭....٭....٭....

0 تبصرے:

اپنا تبصرہ تحریر کریں :-

ضروری بات : غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

Urdu Columns Pk
 
اُردو کالمز | #1 اردو کالمز بلاگ 2011 - 2014