Share
"اُردو کالمز" بلاگ پر خوش آمدید۔ بلاگ کو زیادہ سہولت کیساتھ ڈائنامک ویو (Dynamic View) میں دیکھنے اور پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں:

Monday, November 5, 2012

سونامی اور سینڈی طوفان اور عمران


نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے رفاقت ریاض نے بڑے ہلکے پھلکے انداز میں کہا کہ عمران خان امریکہ گیا ہے۔ وہاں سونامی سینڈی کے نام سے آ گیا ہے جو آدھے امریکہ کو روندتا ہوا گزر گیا ہے۔ دیکھیں پاکستان میں سونامی کب آتا ہے۔ امریکہ کی صدارتی انتخاب کے لئے مہم ملتوی ہو گئی ہے مگر انتخابات اپنے وقت پر ہوں گے جبکہ پاکستان میں سونامی کا چرچا ہے اور انتخابات کے لئے گومگو کی پالیسی ہے۔ ہر کہیں اپنے وقت پر انتخابات ہوتے ہیں۔ پاکستان میں ہر بار انتخابات کے مطالبات ہوتے ہیں۔ ایک سپر پاور طوفان کا مقابلہ نہیں کر سکی۔ اس کی ساری کی ساری طاقت دھری کی دھری رہ گئی۔ امریکہ اور امریکی ایجنٹ دعوے تو بہت کرتے ہیں امریکہ کی ٹیکنالوجی کی بہت تعریفیں کرتے ہیں۔ یہ سمندری طوفان کبھی ننھی منھی مچھلیوں کو تو نہیں ڈبو سکا ان کی ٹیکنالوجی امریکی ٹیکنالوجی سے بہت پہلے کی ہے اور بہت آگے کی ہے۔
امریکہ جو ظالم اور بے انصاف ہے۔ سمندری طوفان کے سامنے اس کی بے بسی بے چارگی بے طاقتی دیکھ کر عجیب لگا۔ امریکہ کے پاکستانی حامی امریکہ کی شان میں کوئی گستاخی برداشت نہیں کر سکتے۔ ڈاکٹر مہدی حسن بڑے دکھ بھرے لہجے میں امریکہ کی شان بیان کر رہے تھے کہ انہوں نے قدرتی آفت کا بڑا مقابلہ کیا اور وہ اس مصیبت پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ بات امریکی عوام کے حوصلے کی ہے مگر اس کے ساتھ وہ فوراً ہی یہ کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ پاکستان میں بھی سیلاب آیا تھا اور ابھی تک سیلاب زدگان مشکل میں ہیں۔ وہ کشمیر کے زلزلے کی بات کرتے ہیں۔ پاکستانیوں کی دردمندی کی بات نہیں کرتے کہ پورا ملک زلزلہ زدگان کی امداد اور دلجوئی کے لئے گھروں سے نکل پڑا تھا۔ اس جذبے کی تعریف نہیں کرتے نہ یہ ذکر کرتے ہیں کہ حکمران اور افسران ساری امداد خود کھا گئے بس امریکہ کے قصیدے پڑھتے ہیں۔ جب روس افغانستان پر قابض تھا تو یہ روس کے ساتھ تھے اب امریکہ افغانستان پر مسلط ہے تو یہ امریکہ کے ساتھ ہیں۔ پاکستان میں لوڈشیڈنگ کا عذاب امریکہ کے غلام پاکستانی حکمرانوں کا تحفہ ہے آج کل امریکہ میں جو لوڈشیڈنگ ہے وہ کس بات کی نشانی ہے؟ کوئی ہے جو اس پر غور کرے۔ بہرحال یہ فطرت کا اشارہ ہے مگر امریکہ اور اس کے غلاموں کا اس سے کوئی سبق چکھنے کا ارادہ نہیں ہے
نہ جا اس کے تحمل پر کہ بے ڈھب ہے گرفت اس کی
ڈر اس کی دیر گیری سے کہ سخت ہے انتقام اس کا
امریکہ کو پہلے سے پتہ تھا اور وہ کچھ نہ کر سکا۔ ایک دن اسے سوویت یونین کی طرح بے بس کر دیا جائے گا۔ ہمیں امریکی عوام سے ہمدردی ہے۔ اس بات پر بھی غور کیا جائے کہ پروفیسر حافظ سعید نے امریکہ کے لئے ہمدردیوں کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ اجازت ہو تو میں پاکستان سے ان کی امداد کے لئے ہرممکن تعاون کے لئے تیار ہوں۔ امریکہ کو شرم آنا چاہئے کہ اس نے بھارت کے مشورے پر حافظ صاحب کے سر کی قیمت مقرر کی ہے جبکہ اسے پاکستانی عدالتیں ہر قسم کے الزام سے بری کر چکی ہیں۔ دہشت گردی کا دوسرا داخلہ امریکہ میں نہیں ہوا مگر امریکہ عالم اسلام اور بالخصوص پاکستان میں مسلسل دہشت گردی کر رہا ہے۔ غلام احمد بلور گستاخ رسول کے سر کی قیمت مقرر کرتے ہیں تو امریکہ کو تکلیف ہوتی ہے ان سے زیادہ اے این پی اور پاکستانی حکومت کو تکلیف ہوئی ہے۔ اب وہ بتائیں کہ وہ کس حال میں ہیں۔ ہم اس پر خوش نہیں ہیں مگر امریکہ کو عبرت پکڑنے کی ہدایت کرتے ہیں
جتنے لوگ سینڈی طوفان میں مرے ہیں اتنے تو تقریباً ہر روز پاکستان میں قتل ہو جاتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ صدر زرداری اور رحمان ملک کراچی میں ہوتے ہیں اور قتل و غارت بڑھ جاتی ہے یہ کیا حکومت ہے اور یہ کیا صدارت ہے۔ ہم پر امریکہ سے بڑا عذاب آیا ہوا ہے اور اس کے ذمہ دار حکمران ہیں اور یہ حکمران امریکہ کے غلام ہیں۔ یہ تو سوچتے ہوں گے کہ آپ ہم عیاشی کرنے امریکہ کیسے جائیں گے؟ 
بہرحال میں پروفیسر حافظ سعید کو سلام پیش کرتا ہوں اور امریکہ سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ حافظ صاحب کی پیشکش قبول کر لیں۔ کشمیر کے زلزلہ زدگان اور خیبر پختون خوا کے سیلاب زدگان کے لئے جماعت الدعوة کی خدمات کا امریکی اور مغربی میڈیا نے بھی اعتراف کیا تھا۔ سینڈی طوفان کو کئی لوگ سمندر کا ڈرون حملہ قرار دے رہے ہیں اور سمندروں کا کنٹرول اللہ کے پاس ہے۔ اب تو امریکہ کو پاکستان کے بے گناہ اور بے خبر لوگوں پر ڈرون حملے بند کر دینا چاہئیں۔
عمران خان امریکہ میں ڈرون حملوں کے خلاف مظاہرہ کرنے گئے ہوئے تھے۔ انہیں روکا گیا اور ائرپورٹ پر پوچھ گچھ کی گئی۔ کیا پاکستان میں بھی کسی امریکی کو روک کر پوچھا گیا ہے کہ آپ ڈرون حملے کیوں کرتے ہو۔ وہاں بھی عمران نے وہی بات کی جو پاکستان میں وہ ڈرون حملوں کے لئے کرتے ہیں۔ عمران کے ساتھ اس بدتمیزی پر حکمرانوں اور سیاستدانوں کو احتجاج کرنا چاہئے تھا۔ 
شاہ محمود قریشی کی طرف سے ایک دعوت تھی۔ میں وہاں محترمہ صادقہ صاحب داد کے کہنے پر گیا وہ باوقار بزرگ خاتون ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ بزرگ کہنے پر خفا نہیں ہوں گی۔ انہیں مل کر عزت کرنے کو جی کرتا ہے۔ اتنی شاندار بوڑھی عورت کے سامنے ماڈرن جوان عورتیں بھی گھبرائے ہوئے رہتی ہیں۔ وہ میرے گھر تشریف لائیں اور مجھے میری اہلیہ کے سامنے کہا کہ تم اب عمران خان سے ناراضگی چھوڑ دو۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ عمران خان میرے قبیلے کا ایک بڑا آدمی ہے۔ میں اس سے کیوں خفا ہوں گا۔ خفا تو وہ مجھ سے ہے۔ میرے خیال میں بڑا اور اچھا آدمی وہ ہے جس کے لئے تعریف اور تنقید میں کوئی فرق نہ ہو۔ مدح اور مذمت جس کے لئے برابر ہو جائے۔ میں محفل میں دیر سے پہنچا۔ مجیب الرحمن شامی کی قیادت میں غلط فہمی ہوئی۔ سب لوگ امریکہ میں طوفان اور عمران کا ایک ساتھ ذکر کر رہے تھے۔ ایک منچلے نوجوان نے کہا کہ اب عمران کو سونامی کی بجائے سینڈی کا ذکر کرنا چاہئے۔ چاہئے تو یہ کہ ایسا طوفان آئے جو سب لٹیروں وڈیروں ظالموں حاکموں وزیروں شذیروں سب کرپٹ لوگوں کو خس و خاشاک کی طرح بہا کے لے جائے۔ کوئی امریکہ بھاگنے نہ پائے۔ بزدل سیاستدان اب امریکہ جانے سے ڈر رہے ہیں کہ وہ سونامی سے تو شاید بچ جائیں۔ انہیں سینڈی سے کون بچائے گا۔ نائن الیون کے خود ساختہ ڈرامے کے بعد امریکہ نے عالم اسلام میں قیامت برپا کی تھی۔ اب سینڈی طوفان کے خود ساختہ عذاب نے امریکہ کے اندر قیامت بپا کر دی ہے
یہ قیامتیں جو گزر گئیں
تھیں امانتیں کئی سال کی
یہ نماز عصر کا وقت ہے
یہ گھڑی ہے دن کے زوال کی

0 تبصرے:

اپنا تبصرہ تحریر کریں :-

ضروری بات : غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

Urdu Columns Pk
 
اُردو کالمز | #1 اردو کالمز بلاگ 2011 - 2014