اٹھارویں صدی کے دوسرے حصے میں جب اہل امریکہ نے اپنا آئین بنایا اور ملک کو چلانے کیلئے ایک سیاسی ڈھانچہ تشکیل دیا تو پھر دیانتداری کے ساتھ اس کی حفاظت بھی کی۔ امریکہ میں کمزور حکومتیں بھی آئیں لیکن شاید ہی کوئی صدر ایسا آیا ہو گا جس نے ملکی وسائل کو لوٹ کر اپنے آپ کو دنیا کے چند امیرترین افراد میں شامل کیا ہو اور ریاست کو کنگال کر دیا ہو یہی وجہ ہے کہ امریکہ بیسویں صدی کا بے تاج بادشاہ بن گیا اس میں شک نہیں کہ آج بھی اکیسویں صدی میں امریکہ سیاسی‘معاشی اور فوجی لحاظ سے دنیا کا مضبوط ترین ملک ہے جس کےساتھ بہترین سیاسی‘ سفارتی اور معاشی تعلقات ہر ملک کے مفاد میں ہیں یہی وجہ ہے کہ تقریباً تمام ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے دانشور حاکموں اور سمجھدار قیادت نے امریکہ کےساتھ تعلقات میں ایک ایسا خوبصورت توازن قائم رکھا کہ اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے وہ امریکی غضب کا نشانہ بنے نہ امریکہ کی گود میں گھس کر اپنی آزادی قربان کی۔ پاکستان دنیا کا واحد بدنصیب ملک ہے جس نے گنڈھے کھائے اور سزا بھی کاٹی۔ ہم نے سوویت یونین کی جاسوسی کرنے کیلئے امریکہ کو یوٹو اڑانے کیلئے بڈابیر‘ پشاور کا اڈہ دیا‘ چین کےساتھ امریکہ کے تعلقات قائم کرنے کیلئے راہ ہموار کی۔ دہشت گردی کی نام نہاد جنگ میں نہ صرف پڑوسی افغان مسلمان ملک کے ساتھ تعلقات میں یو ٹرن لیا بلکہ افغانی سفیر کو پکڑ کر امریکیوں کے حوالے کردیا پھر چالیس ہزار بے گناہ پاکستانیوں کی جانوں کا اس بے ہودہ اور بے مقصد یک طرفہ قتل و غارت میں نذرانہ پیش کر ڈالا۔ ہوائی اڈے‘ بندرگاہیں اور ہوائی راستے بھی اس گناہ بے لذت کیلئے امریکہ کی ہتھیلی پر رکھے اس کے باوجود امریکہ نے پاک فوج اور آئی ایس آئی کو دہشت گردوں کا ساتھی کہا اور اپنے صدارتی مذاکروں میں پاکستانی حکومت کو کٹھ پتلی کہا۔ جس کی باگ ڈور آئی ایس آئی اور فوج جیسے ماتحت اداروں کی کے ہاتھ میں بتائی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ صدر اوباما نے یمن کے صدر کو تو ملاقات کا وقت دیا لیکن پاکستانی صدر امریکہ پہنچ کر بھی امریکی صدر سے ملاقات سے محروم رہے۔ یہ بھی پاکستان کی تذلیل کا ایک بھونڈا انداز تھا۔ پاکستان کی 65سالہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہماری معاشی خوشحالی کا دارومدار بین الاقوامی معاشی فضا پر کم اور امریکی امداد اور آشیر باد پر زیادہ رہا ہے۔ 1947ءسے 1958ءتک ہم امریکی امداد پر چلے اس لئے کہ سیٹو اور سینٹو پر دستخط کئے۔ 1956سے 1969ءتک امریکہ نے ایوب خان کی فوجی حکومت کو ہر طرح کی مدد دی اس لئے کہ سرد جنگ میں کمیونسٹ سوویت یونین کےخلاف پاکستان کو استعمال کیا گیا۔ 1960ءمیں ہونےوالا U2 جاسوس جہاز کا واقعہ سب کو یاد ہے۔ امریکی امداد اور پاک امریکہ خوشگوار تعلقات کی وجہ سے پاکستان کی GDP 6.8فیصد ہو گئی۔ پاکستان کی برآمدات ملیشیا‘ انڈونیشیا اور تھائی لینڈ مشترکہ برآمدات سے بھی زیادہ تھیں۔
کراچی دنیا کا مالیاتی رول ماڈل شہر بنا‘ جنوبی کوریا نے ہمارا دوسرا پنجسالہ منصوبہ نقل کیا۔ امریٹ ہوائی کمپنی نے پی آئی اے سے مدد حاصل کی۔ تربیلا اور منگلا ڈیم بنے۔ جب امریکہ پاکستان پر بڑا خوش تھا۔ 1972ءسے 1979ءتک سول حکومت آئی جس نے ایٹمی طاقت بننے کی خواہش ظاہر کی تو امریکہ ناراض ہو گیا۔ سائمنگٹن پابندی لگا کر ہماری امداد روک لی اور پاک امریکہ سرد جنگ شروع ہو گئی۔ پاکستان نے چین اور غیرجانبدار ممالک کےساتھ روابط بڑھانے کی کوشش کی تو امریکہ نے ذوالفقار علی بھٹو کو Horrible Example بنانے کی دھمکی دے دی۔ امریکی پابندیوں کی وجہ سے ہماری GDP 6.8فیصد سے گر کر پھر 3فیصد تک جا پہنجی۔
1979سے لیکر 1983ءتک جب سوویٹ یونین افغانستان پر قابض ہو گیا تو امریکہ کو ایک بار پھر پاکستان کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اس وقت کی فوجی حکومت کو ہر طرح کی معاشی اور فوجی امداد دی گئی۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کو ہلکا ہاتھ رکھنے کا اشارہ کیا تو پاکستا ن کی GDP کی شرح نمو پھر 3فیصدی سے بڑھ کر 6.6 فیصد ہو گئی۔ 1988ءکے بعد جب سوویٹ یونین افغانستان چھوڑ کر بھاگا تو امریکہ نے پاکستان پر پریسلر ترمیم لاگو کر دی اور بے نظیر اور نواز شریف سول حکومتوں پر اتنی پابندیاں لگائیں کہ پاکستان کا جینا محال کر دیا۔ GDPکی شرح نمو پھر 3فیصد تک گر گئی۔ 1999ءمیں فوجی بغاوت اور 2001ءکے نیو یارک ٹون ٹاورز پر حملے کے بعد امریکہ پھر فوجی حکومت سے گھی شکر ہو گیا۔ معاشی اور فوجی امداد اور امریکی آشیر باد کی بدولت GDP کی شرح نمو تقریباً 7فیصدی ہو گئی۔ فوجی حکومت کے جانے کے بعد جب منتخب عوامی حکومت نے ہر امریکی مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا اور ڈرون حملوں پر تنقید کی تو امریکہ نے اعلان جنگ کئے بغیر پاکستان کےخلاف ننگی جارجیت کا ارتکاب شروع کر دیا۔ ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں پاکستانیوں کا قتل‘ ایبٹ آباد پر ہوائی حملہ‘ سلالہ پوسٹ پر امریکی یلغار اور سینکڑوں ڈرون حملوں نے پاکستان کی خودمختاری اور آزادی کی دھجیاں اڑا کر رکھ دیں۔ نتیجہ کیا نکلا اس ایشین صدی میں جہاں چین‘ جاپان‘ ہندوستان اور بنگلہ دیش اور سری لنکا جیسے ممالک معاشی لحاظ سے مضبوط ترین ہوئے ہیں۔ پاکستان کی GDPکی شرح نمو 3فیصد سے بھی نیچے گر گئی ہے۔ چونکہ امریکہ کی طفیلی ریاست ہونے کے ناطے ہماری خوشحالی کا دارومدار بین الاقوامی معاشی فضا پر کم اور امریکی خوشنودی پر زیادہ ہے۔ اب اوباما دوسری ٹرم کےلئے صدر منتخب ہو چکا ہے جو اس کو مبارک ہو۔ امریکی انتخابات سے پاکستان بہت سارے اسباق حاصل کر سکتا ہے۔ امریکی قوم نے میرٹ پر ایک کالے کو گورے پر فوقیت دی۔ انتخابی مہم میں امیدواروں نے ایک دوسرے پر ذاتی حملے کر کے اپنے آپکو ننگا نہیں کیا۔ زیادہ بڑا ایشو ملکی معاشی صورتحال رہا۔ اوباما کی پالیسیوں پر کھل کر تنقید بھی ہوئی۔ انتخابات دھماکوں اور قتل و غارت سے پاک تھے۔ ہارنے والوں نے وقار کے ساتھ ہار قبول کی اور جیتنے والے کو مبارکباد دی۔ کوئی دھاندلی ہوئی نہ اس کا کوئی الزام سامنے آیا۔
قارئین مذکورہ بالا اچھی روایات کے علاوہ اس انتخابی مہم میں چند تلخ حقائق کا بھی ذکر ہونا چاہئے۔
1۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ بش کی ری پبلیکن حکومت کا عراق اور افغانستان پر حملے غیرقانونی عہد غیراخلاقی اور غیرانسانی تھے۔ اقدار اور values کی بات کرنے والی غیور امریکی قوم کا ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار اس معاملے پر کیوں خاموش رہا اور ریپبلکن امیدوار نے اس جرم کا اعتراف کیا نہ معافی مانگی۔
2۔ امریکہ کی حالیہ صدارتی انتخابات کی مہم میں پاکستان‘ افغانستان‘ عراق اور یمن میں امریکہ کے ہاتھوں ہونےوالی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر امیدواروں نے اپنی قوم اور پوری دنیا سے کیوں معافی نہ مانگی؟
3۔ دونوں امیدوار گوانتا نامو بے کے قیام اور اس میں ہونے والے انسانیت سوز مظالم پر کیوں خاموش رہے۔ ری پبلیکن نے یہ جیل بنائی اور ڈیموکریٹس نے اس کو ختم کرنے کا وعدہ کیا لیکن پھر وعدہ خلافی کی۔ کیوں؟
4۔ ڈرون حملے کولڈ بلڈڈ قتل کے مترادف ہیں جن میں آپ خود ہی جج جیوری اور سزا دینے والے بن جاتے ہیں۔ امریکی ماہرین قانون اس کو بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کہتے ہیں۔ دونوں امیدواروں نے اس پر نادم ہونے کی بجائے پاکستان پر ڈرون حملے جاری رکھنے پر بے شرمی سے اتفاق کیا اور کسی نے بے گناہ مقتولین کے لواحقین سے ہمدردی نہ کی۔
5۔ دونوں امیدواروں نے ایران پر کڑی تنقید کی لیکن فلسطینیوں کے حقوق پر دونوں خاموش تھے۔ کیا اس کو ہم امریکی قوم کی عظمت سمجھیں۔
6۔ پچھلی صدارتی انتخابی مہم میں اوباما نے کہا تھا کہ جنوبی ایشیا کا مسئلہ اس وقت حل ہو گا۔ جب کشمیر کے فلیش پوائنٹ کو ختم کیا جائےگا۔ اس دفعہ دونوں امیدواروں میں اتنی اخلاقی جرا¿ت نہ تھی کہ وہ ہندوستان کو ناراض کرتے۔ امریکہ کی انصاف پسندی اور وہ High values کدھر ہیں جن پر امریکی قوم نازاں ہے۔
قارئین کرام! امریکہ کا نومنتخب صدر امریکی قوم کی معاشی حالت کو ضرور بہتر کرے لیکن دوسرے ممالک جہاں امریکیوں جیسے یہ انسان بستے ہیں ان کا جینا محال نہ کر دے۔ صدر اوباما کو پتہ ہونا چاہئے کہ اسکی پچھلی ٹرم کی پالیسیوں کو تو امریکی عوام نے اس کو دوبارہ منتخب کر کے سراہا ہے لیکن باقی تیسری دنیا اور خصوصاً مسلمان ریاستیں صدر اوباما کے دور میں امریکی عذاب کا شکار رہی ہیں جس میں جانی قربانیوں کے حساب سے پاکستان سر فہرست ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ صدر اوباما اب اپنی خارجہ اور سکیورٹی پالیسی میں بنیادی تبدیلیاں لائے گا اور دوسری قوموں کو بھی جینے کا حق دےگا۔ چونکہ اس نے خود اپنی جیت کے بعد تقریر میں کہا ہے کہ بہتر حالات ابھی آنےوالے ہیں۔ اوباما نے کہا:
"The road has been hard and our journey has been long. Now we have picked ourselves up. But we know the best is yet to come."
مسلمان دنیا کے مظلوم واقعی سمجھتے ہیں کہ
The best is yet to come.
اللہ کرے ایسا ہو۔ آمین!
0 تبصرے:
اپنا تبصرہ تحریر کریں :-
ضروری بات : غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے ۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔